عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ادھار اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں ۱؎ اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں درست ہیں ۲؎ اور نہ اس چیز کا نفع لینا درست ہے، جس کا وہ ابھی ضامن نہ ہوا ہو، اور نہ اس چیز کی بیع درست ہے جو سرے سے تمہارے پاس ہو ہی نہیں ۳؎“(کیونکہ چیز کے سامنے آنے کے بعد اختلاف اور جھگڑا پیدا ہو سکتا ہے)۔
وضاحت: ۱؎: اس کی صورت یہ ہے کہ بائع خریدار کے ہاتھ آٹھ سو کا سامان ایک ہزار روپیے کے عوض اس شرط پر بیچے کہ بائع خریدار کو ایک ہزار روپے بطور قرض دے گا گویا بیع کی اگر یہ شکل نہ ہوتی تو بیچنے والا خریدار کو قرض نہ دیتا، اور اگر قرض کا وجود نہ ہوتا تو خریدار یہ سامان نہ خریدتا۔ ۲؎: مثلاً کوئی کہے کہ یہ غلام میں نے تم سے ایک ہزار نقد یا دو ہزار ادھار میں بیچا یہ ایسی بیع ہے جو دو شرطوں پر مشتمل ہے یا مثلاً کوئی یوں کہے کہ میں نے تم سے اپنا یہ کپڑا اتنے اتنے میں اس شرط پر بیچا کہ اس کا دھلوانا اور سلوانا میرے ذمہ ہے۔ ۳؎: بائع کے پاس جو چیز موجود نہیں ہے اسے بیچنے سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ اس میں دھوکا دھڑی کا خطرہ ہے جیسے کوئی شخص اپنے بھاگے ہوے غلام یا اونٹ کی بیع کرے جب کہ ان دونوں کے واپسی کی ضمانت بائع نہیں دے سکتا، البتہ ایسی چیز کی بیع جو اپنی صفت کے اعتبار سے مشتری کے لئے بالکل واضح ہو جائز ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع سلم کی اجازت دی ہے باوجود یہ کہ بیچی جانے والی شے بائع کے پاس فی الوقت موجود نہیں ہوتی۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 19 (1234)، سنن النسائی/البیوع 60 (4625)، سنن ابن ماجہ/التجارات 20 (2188)، (تحفة الأشراف: 8664)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/174، 178، 205) (حسن صحیح)»
Narrated Amr bin Suhaib: On his father's authority, said that his grandfather Abdullah bin Amr reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: The proviso of a loan combined with a sale is not allowable, nor two conditions relating to one transaction, nor profit arising from something which is not in one's charge, nor selling what is not in your possession.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3497
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (2870) أخرجه الترمذي (1234 وسنده صحيح) والنسائي (4615 وسنده صحيح) وابن ماجه (2188 وسنده صحيح)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3504
فوائد ومسائل: توضیح۔ ادھار اور بیع۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص نقد اور ادھار کی قیمتوں میں فرق کو ناجائز سمجھتا ہے۔ لیکن حیلے سے یہ انداز اختیار کرے۔ کہ کوئی چیز خریدے مگر رقم پاس نہ ہو۔ تو پھر اس دوکاندار تاجرسے رقم ادھار لے لے تاکہ بیع کی قیمت ادا کردے۔ ایک صورت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ میں تین لاکھ کا یہ مکان تجھے دو لاکھ میں دیتا ہوں۔ بشرط یہ کہ تو مجھے پانچ لاکھ کا مکان ادھار دے یا میں تجھے یہ غلام پچاس دینار میں بیچتا ہوں۔ بشرط یہ کہ تو مجھے ایک ہزار درہم ادھاردے وغیرہ اوراس میں بنیادی علت ربا (سود) ہے۔ ایک بیع میں دو شرطیں۔ مثلا میں تجھے یہ چیز فروخت کرتا ہوں۔ بشرط یہ کہ آگے فروخت نہ کرے۔ اور نہ ہبہ کرے۔ یا یہ کپڑا فروخت کرتا ہوں۔ اور اس شرط کے ساتھ کہ میں سلوا دوں گا۔ اوردھلوا بھی دوں گا۔ بعض علماء نے (بيعة في بيعتين) کو بھی اس میں شما ر کیا ہے۔ (تفصیل کےلئے دیکھئے گزشتہ حدیث 3461 کے فوائد۔ باقی کی تفصیل پچھلی حدیث کے فائدے میں ملاحظہ فرمایئں۔ )
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3504
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 667
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام` سیدنا عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور انھوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قرض اور بیع حلال نہیں اور نہ ایک بیع میں دو شرطیں حلال ہیں اور کسی چیز کا منافع حاصل کرنا اسے اپنے قبضہ میں لینے سے پہلے جائز نہیں اور جو تیرے پاس موجود نہ ہو اس کا فروخت کرنا بھی جائز و حلال نہیں۔“ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ترمذی، ابن خزیمہ اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور امام حاکم نے علوم الحدیث میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی روایت سے مذکورہ عمرو رحمہ اللہ کے واسطے سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع شرط کے ساتھ منع فرمائی ہے۔“ اس حدیث کو طبرانی نے اوسط میں اسی طریق سے نقل کیا ہے اور وہ غریب ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 667»
تخریج: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في الرجل يبيع ماليس عنده، حديث:3504، والترمذي، البيوع، حديث:1234، والنسائي، البيوع، حديث:4635، وابن ماجه، التجارات، حديث:2188، وأحمد:2 /174، 178، 205، وابن خزيمة: لم أجده، والحاكم:2 /17.* رواية أبي حنيفة: أخرجها الحاكم في معرفة علوم الحديث، ص:128، والطبراني في الأوسط:5 /184، حديث:4358 وسندها ضعيف جدًا، فيه عبدالله بن أيوب بن زاذان الضرير وهو متروك كما قال الدارقطني رحمه الله.»
تشریح: راوئ حدیث: «امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ» ائمۂ اربعہ میں سے ایک مشہور و معروف امام ہیں اور ان کا نام نعمان بن ثابت کوفی ہے۔ اور بنو تیم اللہ بن ثعلبہ کے مولیٰ ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ ابنائے فارس میں سے ہیں۔ ریشم فروش تھے۔ روایت حدیث میں ایک جماعت نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے اور دوسرے لوگوں نے ضعیف۔ امام ابن مبارک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ فقہ میں میں نے ان کا مثیل نہیں دیکھا۔ اپنی شہرت کی وجہ سے تعارف سے مستغنی ہیں۔ فقہ‘ ورع‘ زہد اور سخاوت میں مشہور ہیں۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۱۵۰ ہجری میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 667
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4615
´بیچنے والے کے پاس غیر موجود چیز کے بیچنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ادھار اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں ۱؎، اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں درست ہیں ۲؎، اور نہ اس چیز کی بیع درست ہے جو سرے سے تمہارے پاس ہو ہی نہ“۳؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4615]
اردو حاشہ: (1) ایسی چیز جو فروخت کرنے والے کے پاس نہ ہو اس کا فروخت کرنا شرعاََ نا جائز اور حرام ہے۔ ہمارے ہاں اکثر دکاندار حضرات، اپنی ”گاہکی“ پکی کرنے کے لیے اس قسم کی قبیح حرکات کا ارتکاب عام طور پر کرتے رہتے ہیں، حالانکہ شریعتِ مطہرہ نے اس قسم کے ”تعاون“ کو ناجائز قرار دیا ہے۔ بعض دکاندار اس سے بھی ایک قدم آگے چلے جاتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ جو چیز ان کے پاس نہیں ہوتی آنے والے سے اس کی قیمت لے لیتے ہیں اور چند دن بعد چیز لا دینے کا وعدہ کر لیتے ہیں۔ یہ پہلی صورت سے بھی زیادہ خطرناک صورت ہے، اس لیے کہ یہ معلوم ہی نہیں کہ مطلوبہ چیز ملے گی یا نہیں؟ اگر ملے گی تو گاہک کو پسند آئے گی یا نہیں؟ یہ بھی معلوم نہیں۔ پسند آ جانے کی صورت میں قیمت کی کمی بیشی کا معاملہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ بنا بریں شریعت مطہرہ کی ہدایات کے مطابق ایسی ہر بیع سے بچنا چاہیے جو شر فساد کا ذریعہ بن سکتی ہو۔ (2) یہ حدیث مبارکہ ایسی بیع سے روکتی ہے جو قرض لینے یا دینے کی شرط پر کی جائے، نیز یہ حدیث مبارکہ ایسی بیع کو بھی حرام ٹھہراتی ہے جسے دو شرطوں کے ساتھ معلق کر دیا جائے۔ (3)”قرض اور بیع“ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرض بیع کی شرط پر ہو۔ اور وہ اس طرح کہ ایک شخص دوسرے سے کہے میں تجھے تب قرض دوں گا کہ تو مجھ سے فلاں چیز اتنے کی خریدے۔ یا بیع قرض شرط پر ہو، اور وہ اس طرح کہ ایک شخص دوسرے سے کہے کہ میں تجھ سے فلاں چیز خریدتا ہوں اس شرط پر کہ تو مجھے قرض دے۔ ان صورتوں میں چونکہ قرض سے مفاد حاصل کیا جا رہا ہے اور یہ سود ہے، اس لیے ان صورتوں سے منع فرما دیا گیا۔ (4)”بیع میں دو شرطیں“ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے: میں تجھے فلاں چیز نقد دس روپے میں اور ادھار بارہ روپے میں دیتا ہوں اور معاملہ کسی ایک شرط پر طے نہ ہو تو یہ سود ہے، البتہ کسی ایک شرط پر معاملہ طے ہو جائے، مثلا: گاہک ادھار بارہ روپے میں لے جائے یا نقد دس روپے میں لے جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اب ایک شرط رہ گئی، دو نہ رہیں۔ نقد اور ادھار بھاؤ میں فرق فطری ہے جیسے تھوک اور پر چون بھاؤ میں فرق، لہٰذا اس میں کوئی حرج نہیں، نیز یکمشت ادائیگی اور قسطوں والی ادائیگی میں فرق بھی اسی طرح ہے۔ (5)”جو چیز تیرے پاس نہیں“ مثلاََ: غلام بھاگ گیا ہے تو اس کو پکڑنے سے پہلے اسے بیچا نہیں جا سکتا۔ اسی طرح کسی کی چیز بھی نہیں بیچی جا سکتی۔ اسی طرح غلہ وغیرہ قبضے میں لینے سے پہلے بیچنا منع ہے، البتہ اگر کوئی چیز بذات خود معین نہ ہو بلکہ اس کی صفات معین کر لی جائیں تو چیز موجود نہ ہونے کے باوجود اس کی بیع ہو سکتی ہے، مثلاََ کسی سے کہا جائے کہ میں گندم کی کٹائی کے موقع پر تجھ سے فلاں قسم کی بیس من گندم اتنے بھاؤ سے لوں گا اور رقم بھی اسے ادا کر دے، خواہ اس کے پاس گندم یا گندم کا کھیت موجود نہ ہو بلکہ خواہ اس کے پاس سرے سے زمین ہی نہ ہو کیونکہ وہ بازار سے گندم خرید کر مہیا کر سکتا ہے، البتہ اگر کہا جائے کہ فلاں کھیت کی گندم خریدتا ہوں جبکہ اس کھیت میں گندم ابھی پکی نہ ہو یا اس کھیت میں گندم بیجی ہی نہ گئی ہو تو یہ بیع درست نہیں کیونکہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس کھیت سے گندم پیدا ہو گی۔ اگر پیدا ہو گی کیسی پیدا ہو گی؟ ابہام والی بیع درست نہیں، جیسے اڑتے معین پرندے کی بیع یا پانی میں تیرتی معین مچھلی کی بیع درست نہیں۔ ابہام کے علاوہ ان میں ”پاس نہ ہونے والی“ خرابی بھی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4615
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4633
´سلف اور بیع ایک ساتھ کرنا (یعنی بیچنے والا ایک چیز بیچے اس شرط پر کہ خریدار اس کو قرض دے)۔` عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلف اور بیع ایک ساتھ کرنے، ایک بیع میں دو شرطیں لگانے، اور اس چیز کے نفع لینے سے منع فرمایا جس کے تاوان کا وہ ذمے دار (ضامن) نہ ہو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4633]
اردو حاشہ: ”غیر مقبوضہ چیز کے منافع“ یعنی غیر مقبوضہ چیز کو بیچ کر اس سے نفع حاصل کرنا۔ اصل منع تو بیچنا ہے۔ دارصل نفع کمانے کے لیے ہی بیچا جاتا ہے، اس لیے منافع کا ذکر کیا۔ یہ مطلب نہیں کہ نقصان اٹھا کر بیچنا جائز ہے۔ (باقی تفصیلات کے لیے دیکھیے، حدیث: 4615)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4633
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4635
´ایک بیع میں دو شرط لگانا یعنی کوئی یہ کہے کہ میں تم سے اس شرط پر یہ سامان بیچ رہا ہوں کہ اگر ایک مہینہ میں قیمت ادا کر دو گے تو اتنے روپے کا ہے اور دو مہینہ میں ادا کرو گے تو اتنے کا۔۔` عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلف (قرض) اور بیع ایک ساتھ کرنے سے، ایک ہی بیع میں دو شرطیں لگانے سے، اور اس چیز کے بیچنے سے جو تمہارے پاس موجود نہ ہو اور ایسی چیز کے نفع سے جس کے تاوان کی ذمہ داری نہ ہو، (ان سب سے) منع فرمایا۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4635]
اردو حاشہ: تمام تفصیلات دیکھنے کے لیے حدیث نمبر 4616‘4633 ملاحطہ فرمائیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4635
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2188
´جو چیز پاس میں نہ ہو اس کا بیچنا اور جس چیز کا ضامن نہ ہو اس میں نفع لینا منع ہے۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کا بیچنا جائز نہیں، اور نہ اس چیز کا نفع جائز ہے جس کے تم ضامن نہیں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2188]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جب خریدار اپنی چیز بیچنے والے سے وصول کرکے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے تو اس چیز کو پہنچنے والے نقصان کی ذمے داری بھی خريدار پر ہو جاتی ہے۔ اس سے پہلے ہونے والا نقصان بیچنے والے کا ہوتا ہے، اس لیے جس کی ذمے داری قبول نہیں کی گئی، کا مطلب ہے جو چیز وصول نہیں کی گئی اور خریدار نے ابھی قبضے میں نہیں لی۔
(2) خریدار اپنے خریدے ہوئے سامان کو قبضے میں لے کر ہی کسی اور کے ہاتھ میں فروخت کرسکتا ہے، اس سے پہلے فروخت کرنا جائز نہیں۔
(3) ہر چیز کا قبضہ اس کی نوعیت کے لحاظ سے ہوتا ہے، عام منقول چیز کا قبضہ چیز وصول کرلینا ہے، مثلاً: گندم کو بیچنے والے کے پاس سے اٹھا لینا، اور غیر منقولہ چیز، مثلاً: مکان سے بیچنے والے کا اپنی چیزیں نکال لینا اور خریدار کواس میں داخل ہونے اور رہائش اختیار کرنے کی اجازت دینا، وغیرہ۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2188
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1234
´جو چیز موجود نہ ہو اس کی بیع جائز نہیں۔` عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیع کے ساتھ قرض جائز نہیں ہے ۱؎، اور نہ ایک بیع میں دو شرطیں جائز ہیں ۲؎ اور نہ ایسی چیز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے جس کا وہ ضامن نہ ہو ۳؎ اور نہ ایسی چیز کی بیع جائز ہے جو تمہارے پاس نہ ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1234]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس کی صورت یہ ہے کہ فروخت کنندہ، بائع کہے کہ میں یہ کپڑا تیرے ہاتھ دس روپے میں فروخت کرتا ہوں بشرطیکہ مجھے دس روپے قرض دے دو یا یوں کہے کہ میں تمہیں دس روپے قرض دیتا ہوں بشرطیکہ تم اپنا یہ سامان میرے ہاتھ سے بیچ دو۔
2؎: اس کے متعلق ایک قول یہ ہے اس سے مراد ایک بیع میں دوفروختیں اورامام احمد کہتے ہیں اس کی شکل یہ ہے کہ بیچنے والا کہے میں یہ کپڑاتیرے ہاتھ بیچ رہاہوں اس شرط پر کہ اس کی سلائی اوردھلائی میرے ذمہ ہوگی۔
3؎: یعنی کسی سامان کا منافع حاصل کرنا اس وقت تک جائزنہیں جب تک کہ وہ اس کا مالک نہ ہوجائے اورا سے اپنے قبضہ میں نہ لے لے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1234