سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
Wages (Kitab Al-Ijarah)
19. باب فِيمَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ
19. باب: ایک بیع میں دو بیع کرنے کی ممانعت۔
Chapter: Regarding One Who Does Two Transactions In One.
حدیث نمبر: 3461
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة، عن يحيى بن زكريا، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" من باع بيعتين في بيعة فله اوكسهما او الربا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْكَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایک معاملہ میں دو طرح کی بیع کی تو جو کم والی ہو گی وہی لاگو ہو گی (اور دوسری ٹھکرا دی جائے گی) کیونکہ وہ سود ہو جائے گی ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: «بيعتين في بيعة» ایک چیز کے بیچنے میں دو طرح کی بیع کرنا جیسے بیچنے والا خریدنے والے سے یہ کہے کہ یہ کپڑا ایک دینار کا ہے اور یہ دو دینار کا اور خریدنے والے کو دونوں میں سے ایک لینا پڑے، بعض لوگوں نے کہا کہ اس کی مثال یہ ہے کہ بیچنے والا خریدنے والے سے کہے کہ میں نے تمہارے ہاتھ یہ کپڑا نقد دس روپیہ میں اور ادھار پندرہ میں بیچا، بعضوں نے کہا: بیچنے والا خریدار سے کہے کہ میں نے اپنا باغ تمہارے ہاتھ اس شرط سے بیچا کہ تم اپنا گھر میرے ہاتھ بیچو، مگر دوسری صورت اس حدیث کے مضمون سے زیادہ مناسب ہے کیونکہ ایک چیز کی دو بیع میں دو قیمتیں کم اور زیادہ ہیں، اور اگر کم کو اختیار نہ کرے تو سود لازم ہو گا، ایک بیع میں دو بیع کی تشریح ابن القیم نے اس طرح کی ہے: بیچنے والا خریدنے والے کے ہاتھ کوئی سامان سو روپے ادھار پر بیچے، پھر خریدار سے اسی سامان کو اسی روپے نقد پر خرید لے، چونکہ یہ بیع سود تک پہنچانے والی ہے اس لئے ناجائز ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15105)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع 18 (1231)، سنن النسائی/البیوع 73 (7/4636)، موطا امام مالک/البیوع 33 (73)، مسند احمد (2/432، 475، 503) (حسن)» ‏‏‏‏

Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: If anyone makes two transactions combined in one bargain, he should have the lesser of the two or it will involve usury.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3454


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (2868)
رواه الترمذي (1231 وسنده حسن) والنسائي (4636 وسنده حسن) بلفظ ’’نھي عن بيعتين في بيعة‘‘

   سنن أبي داود3461عبد الرحمن بن صخرمن باع بيعتين في بيعة فله أو الربا
   بلوغ المرام666عبد الرحمن بن صخرمن باع بيعتين في بيعة فله أوكسهما أو الربا
   المعجم الصغير للطبراني191عبد الرحمن بن صخر لا صلاة بعد الصبح حتى تطلع الشمس ، ولا بعد العصر حتى تغرب الشمس

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3461 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3461  
فوائد ومسائل:
توضیح۔
اس کی وضاحت میں فقہائے کرام یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی یوں کہے کہ اس چیز کی نقد قیمت سو روپیہ اور ادھار دو سوروپیہ ہے۔
اور وہ دونوں معاملہ کرلیں۔
لیکن نقد یا ادھار میں سے کوئی سی صورت وضاحت سے متعین نہ کریں تو یہ ایک سودے میں دو سودے ہوں گے۔
اس میں چونکہ ایک قیمت متعین نہیں ہوتی۔
اس لئے بیع فاسد ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی کہے میں تمھیں یہ چیز سوروپے میں فروخت کرتا ہوں۔
بشرط یہ کہ تم اپنی فلاں چیز پچاس روپے میں مجھے فروخت کرو۔
یہ بھی ایک سودے میں دو سودے ہیں۔
اور غرض دو سرے کی چیز سستی لینا ہے۔
اس میں سود کا عنصر شامل ہے۔
یہ صورت بھی مذکورہ بالا باب میں بیان کردہ صورت کی طرح سود کا ایک حیلے کے طور پر اختیار کرنا ہے۔
علامہ ابن اثیر ؒ نے ایک سودے میں دو سودوں کی ایک صورت یہ بھی لکھی ہے۔
کہ کسی ایک نے دوسرے کو پانچ سو روپے دیے ہوں۔
کہ ایک مہینے میں مجھے گندم کی بوری دے دینا مگر وقت آنے پر وہ گندم نہ دے سکے تو دوسرا پہلے سے کہہ سکے کہ تم مجھے وہ بوری فروخت کردو۔
میں ایک مہینہ بعد تمھیں دو بوریاں دوں گا۔
یہ تو صریح سود ہے۔
نیز ایک معدوم شے کی بیع بھی ہے۔
جو جائز نہیں۔
خیال رہے کہ پہلی صورت میں اگر دونوں فریق کسی ایک قیمت پر متفق ہوکرعلیحدہ ہوں۔
تو کوئی حرج نہیں۔
یہ بیع بالکل صحیح ہوگی۔
علماء فقہاء کی اکثریت اس کے جواز کی قائل ہے۔
بنا بریں ان فقہاء کے نزدیک نقد ادھار کی قیمت میں فرق جائز ہے۔
اور اس طرح قسطوں پر کاروبار بھی جائز ہے۔
تاہم علماء کا ایک گروہ اس کے جواز کا قائل نہیں ہے۔
ان کے نزدیک نقد وادھار کی قیمت کا فرق حدیث کے الفاظ (فله أوكسها أو الربا) کی رو سے ربا کا واضح احتمال اپنے اندر رکھتا ہے۔
اس لئے قسطوں کا کاروبار ربا (سود) کے شائبے سے پاک نہیں ہے۔
جب ایسے ہے تو اس کاروبار سے بچنا بہرحال بہتر ہے۔
اسی طرح قسطوں پر اشیاء کا خریدنا بھی خلاف اولیٰ ہے۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3461   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.