عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص غیر نامزد نذر مانے تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے اور جو کسی گناہ کی نذر مانے تو اس کا (بھی) کفارہ وہی ہے جو قسم کا ہے، اور جو کوئی ایسی نذر مانے جسے پوری کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے، اور جو کوئی ایسی نذر مانے جسے وہ پوری کر سکتا ہو تو وہ اسے پوری کرے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وکیع وغیرہ نے اس حدیث کو عبداللہ بن سعید (بن ابوہند) سے ابن عباس رضی اللہ عنہما پر موقوفاً روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الکفارات 17 (2128)، (تحفة الأشراف: 6341) (ضعیف مرفوعاً)» (اس کے راوی طلحہ انصاری حافظہ کے کمزور راوی ہیں ان کے بالمقابل وکیع ثقہ ہیں اور انہوں نے اسے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول سے روایت کیا ہے)
Narrated Abdullah ibn Abbas: The Prophet ﷺ said: If anyone takes a vow but does not name it, its atonement is the same as that for an oath, if anyone takes a vow to do an act of disobedience, its atonement is the same as that for an oath, if anyone takes a vow he is unable to fulfill, its atonement is the same as that for an oath, but if anyone takes a vow he is able to fulfill, he must do so. Abu Dawud said: This tradition has been transmitted by Waki and others on the authority of Abdullah bin Saeed bin Abi al-Hind, but they traced it no farther back than Ibn Abbas.
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3316
قال الشيخ الألباني: ضعيف مرفوعا
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3436) طلحة بن يحيي حسن الحديث وتابعه ابن جريج عند البيھقي (10/72) وللحديث شواھد
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3322
فوائد ومسائل: یہ روایت موقوف ہے۔ اس لئے مرفوع کے مقابلے میں حجت نہیں۔ صحیح مرفوع روایات سے جو ثابت ہے۔ اس کا خلاصہ امام شوکانی نےاس طرح بیان کیا ہے کہ اگرمعین نذر نیکی سے متعلق ہو لیکن اس پر عمل طاقت سے باہر ہو۔ تو اس میں قسم کا کا کفارہ ہے۔ اور اگر وہ انسانی طاقت و وسعت کے اندر ہو تو اس کا پورا کرنا واجب ہے۔ چاہے اس کا تعلق بدن سے ہویا مال سے اور اگر وہ نذر کسی معصیت کی ہو۔ تو اسے پورا نہ کرنا واجب ہے۔ لیکن اس میں کفارے کی ادایئگی ضروری نہیں اگر اس نذر کا تعلق مباح (جائز) امر سے ہو وہ انسانی طاقت سے بالا بھی نہ ہو۔ تو وہ نذ ر بھی منعقد ہوجائے گی۔ اور اس میں کفارے کی ادائیگی بھی لازمی ہوگی۔ جیسے پیدل چلنے والی صحابیہ کو آپ نے پیدل حج پر جانے سے منع فرمایا۔ اور اسے سوار ہونے کا کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ اور اگر وہ کام انسانی طاقت سے بالا ہو تو اس میں کفارہ واجب ہے۔ (نیل الأوطار، أبواب الأیمان،کفارتھا، باب من نذر نزرا لم یسعه ولایطیقه: 278/8)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3322