(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابن ابي ذئب، حدثني صالح مولى التوءمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من صلى على جنازة في المسجد، فلا شيء عليه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنِي صَالِحٌ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز جنازہ مسجد میں پڑھی تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: دوسری روایت میں ہے اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا، اور زیادہ صحیح روایت یہی ہے، اور یہ عام حالات کے لئے ہے اور مسجد میں صرف جواز ہے فضیلت نہیں)
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 29 (1517)، (تحفة الأشراف: 13503)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/444، 455) (حسن)»
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: If anyone prays over the dead in the mosque, there is nothing on him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3185
قال الشيخ الألباني: حسن لكن بلفظ فلا شيء له
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (1517) صالح بن نبھان مولي التوأمة اختلط واختلف المحدثون في سماع ابن أبي ذئب منه أقبل اختلاطه أم بعد اختلاطه؟ وقال البخاري: ’’و ابن أبي ذئب سماعه منه أخيرًا يروي عنه مناكير‘‘ (امعرفة السنن والآثار للبيهقي 3/ 181) فالسند ضعيف من أجل الشك في تحديثه قبل اختلاطه ومع ذلك ھو ضعيف ضعفه الجمھور (انظر مقالات 3/ 206) والحديث ضعيف باتفاق المحدثين انوار الصحيفه، صفحه نمبر 118
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3191
فوائد ومسائل: شیخ البانی نے بھی فلاشیئ علیه کےالفاظ کی بجائے فلاشیئ له کو صحیح قرار دیا ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے والے کو کچھ نہیں ملے گا۔ اور اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ خاص اجر اسے نہیں ملے گا۔ صرف نماز جنازہ کا اجر ملے گا۔ مطلق اجر کی نفی اسی لئے نہیں کی جاسکتی۔ کہ صحیح حدیث سے خود رسول اللہ ﷺ کا نماز جنازہ مسجد میں پڑھنا ثابت ہے۔ اس لئے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ مسجد سے باہر پڑھنا افضل قرار پائے گا۔ واللہ اعلم۔ (مذید تفصیل کے لئے دیکھئے۔ الصحیحة: 462/5 حدیث 2351)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3191
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1517
´نماز جنازہ مسجد میں پڑھنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص نماز جنازہ مسجد میں پڑھے تو اس کے لیے کچھ نہیں ہے ۱؎۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1517]
اردو حاشہ: فائدہ: مذکورہ روایت کی بابت حافظ ابن البر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ کہ اس حدیث کےآخری الفاظ کی بابت اختلاف ہے۔ کسی میں فَلَاشَیْئٌ عَلَیْه کسی میں فَلَاشَیْئٌ لَه کسی میں فَلَیْسَ لَهُ شَیْئٌ اور کسی میں لَیْسَ لَهُ أَجْرٌ کے الفاظ ہیں۔ ان الفاظ کی بابت امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ حافظ ابن عبد البر شیخ البانی اور الموسوعۃ الحدیثیہ کے محققین لکھتے ہیں۔ کہ ان میں سب سے صحیح فَلَاشَیْئٌ عَلَیْه کے الفاظ ہیں۔ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے۔ کہ اسے خاص اجر نہیں ملے گا۔ صرف نماز جنازہ کا اجر ملے گا۔ مطلق اجر کی نفی اس لئے نہیں کی جا سکتی۔ کہ صحیح حدیث سے خود رسول اللہ ﷺ کا نماز جنازہ مسجد میں پڑھنا ثابت ہے۔ علاوہ ازیں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے مسجد میں نماز جنازہ پوچھا گیا توفرمایا۔ یہ سنت ہے۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ مسجد میں پڑھایا۔ اسی طرح حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ بھی کبار صحابہ کی موجودگی میں مسجد ہی میں پڑھایا تو کسی نے اختلاف نہ کیا۔ اس لئے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا البتہ مسجد سے باہر پڑھنا ا فضل اور بہتر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1517