عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے آتے تو ہم لوگ آپ کے استقبال کے لیے جاتے، جو ہم میں سے پہلے پہنچتا اس کو آپ آگے بٹھا لیتے، چنانچہ (ایک بار) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سامنے پایا تو مجھے اپنے آگے بٹھا لیا، پھر حسن یا حسین پہنچے تو انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا، پھر ہم مدینہ میں اسی طرح (سواری پر) بیٹھے ہوئے داخل ہوئے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/فضائل الصحابة 35 (2428)، سنن ابن ماجہ/الأدب 33 (3773)، (تحفة الأشراف: 5230)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الاستئذان 36 (2707)، مسند احمد (1/203) (صحیح)»
Abdullah bin Jafar said “When the Prophet ﷺ arrived after a journey, we were taken for his reception. Any of us who met him first he lifted him in front of him. As I was the first to meet him, he lifted me in front of him. Then Hasan or Hussain was brought to him and he set him behind him. We the entered Madeenah and we (were) riding so (three on one beast). ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2560
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3773
´ایک سواری پر تین آدمیوں کے سوار ہونے کا بیان۔` عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے تشریف لاتے تو ہم لوگ آپ کے استقبال کے لیے جاتے، ایک بار میں نے اور حسن یا حسین رضی اللہ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا، تو آپ نے ہم دونوں میں سے ایک کو اپنے آگے، اور دوسرے کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھا لیا، یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3773]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بزرگوں کو چاہیے کہ بچوں سے شفقت کا سلوک کریں۔
(2) سفر سے واپس آنے والے کا استقبال کرنا درست ہے لیکن اس میں بے جا تکلفات کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
(3) جانور پر ایک سے زیادہ افراد سوار ہو سکتے ہیں بشرطیکہ جانور آسانی سے بوجھ برداشت کر سکے۔ لمبے سفر میں یا کمزور جانور پر دو افراد کا سوار ہونا مناسب نہیں۔
(4) حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ اور حسن یا حسین ؓ بچے تھے۔ ان دونوں کا بوجھ مل کر بھی ایک بڑے آدمی کے برابر نہیں تھا، اس لیے تین افراد کا سوار ہونا جانور کے لیے مشقت کا باعث نہیں تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3773