3005. حضرت ابو بشیر انصاری ؓسے روایت ہے کہ وہ کسی سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ جب سب لوگ اپنی اپنی خواب گاہوں میں چلے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا۔ ”کسی اونٹ کی گردن میں کوئی بندھن یا تانت وغیرہ باقی نہ رہے بلکہ اسے کاٹ دیا جائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3005]
حدیث حاشیہ: اس حکم امتناعی کے متعلق محدثین کرام اقوال ذکر کیے ہیں۔
لوگ اونٹ کے گلے میں تانت وغیرہ باندھتے تھے تاکہ انھیں نظر بدنہ لگے۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں کاٹنےکا حکم دیا کہ اس سے عقیدہ خراب ہوتا ہے اور ایسا کرنا اللہ کی تقدیر کو رد نہیں کر سکتا۔
لوگ اس تانت میں گھنٹی باندھتے تھے چنانچہ ایک حدیث میں ہے۔
”فرشتے اس قافلے کے ساتھ نہیں چلتے جس میں گھٹنیاں بجتی ہوں۔
“ (سنن أبي داود، الجهاد، حدیث: 2554) ویسے بھی گھنٹی وغیرہ جنگی چال کے منافی ہے۔
اس قسم کی تانت سے گلا کٹنے کا اندیشہ ہے بعض اوقات سانس تنگ ہو جاتا ہے اور چارا چرنے میں تکلیف کا باعث ہے نیز ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تانت درخت کے ساتھ پھنس جائے اس سے جانور کا گلاکٹ جائے ان وجوہات کی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ حکم امتناعی جاری فرمایا۔
امام بخاری ؒکے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے دوسری توجیہ کو پسند کیا ہے۔
(فتح الباري: 172/6) واللہ أعلم۔