سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
Zakat (Kitab Al-Zakat)
29. باب فِي الاِسْتِعْفَافِ
29. باب: سوال سے بچنے کا بیان۔
Chapter: On Abstinence From Begging.
حدیث نمبر: 1646
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث بن سعد، عن جعفر بن ربيعة، عن بكر بن سوادة، عن مسلم بن مخشي، عن ابن الفراسي، ان الفراسي، قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: اسال يا رسول الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا، وإن كنت سائلا لا بد فاسال الصالحين".
(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ مَخْشِيٍّ، عَنْ ابْنِ الْفِرَاسِيِّ، أَنَّ الْفِرَاسِيّ، قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَسْأَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا، وَإِنْ كُنْتَ سَائِلًا لَا بُدَّ فَاسْأَلِ الصَّالِحِينَ".
ابن الفراسی سے روایت ہے کہ فراسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا! اللہ کے رسول! کیا میں سوال کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اور اگر سوال کرنا ضروری ہی ہو تو نیک لوگوں سے سوال کرو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الزکاة 84 (2588)، (تحفة الأشراف:15524)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/334) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی مسلم لین الحدیث اور ابن الفراسی مجہول ہیں)

Narrated Ibn al-Firasi: Al-Firasi asked the Messenger of Allah ﷺ: May I beg, Messenger of Allah? The Prophet ﷺ said: No, but if there is no escape from it, beg from the upright.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1642


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
نسائي (2588)
ابن الفراسي لم أجد من وثقه وھو مجهول،انظر التحرير (8485)
مسلم بن مخشي وثقه ابن حبان وحده فھو مجهول،راجع التحرير (6646)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 66

   سنن النسائى الصغرى2588موضع إرسالإن كنت سائلا لابد فاسأل الصالحين
   سنن أبي داود1646موضع إرسالإن كنت سائلا لا بد فاسأل الصالحين

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1646 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1646  
1646. اردو حاشیہ: یہ روایت تو سند ضعیف ہے۔تاہم اس اعتبارسے معنا صحیح ہے۔کہ دنیا میں اسباب ظاہری کی حد تک انسانوں کو ایک دوسرے سے مانگنے کی ضرورت پیش آتی ہی رہتی ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ جب بھی ایسی ضرورت پیش آئے۔ تو اس کا اظہار نیک لوگوں سے کیا کرو۔ کیونکہ صالح افراد کسی بھی ضرورت مند مسلمان کی خیر خواہی اور امکانی حد تک تعاون سے بخیل نہیں ہوتے۔ان کی آمدنی حلال اور ان کے تعاون دینے میں احسان دھرنے والی بات نہیں ہوتی۔اس حدیث کا فوت شدہ افراد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔بلکہ یہ سوال صرف ان صالح بذرگوں سے ہو سکتا ہے۔جو حیات اور زندہ ہوں۔جو تحت الابواب میں مدد کرسکتے ہیں۔مثلا عام تعاون قرض سفارش اور دعا کرنا وغیرہ۔۔۔ اور ایسے صالحین جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہوں ان سے مدد مانگنا اور دُعا کرنا حرام اور شرک ہے۔کیونکہ ان سے مدد مانگنا مادراء الاسباب ہے مثلا شفا کےلئے روزی کےلئے اولاد کےلئے نفع حاصل کرنے اور نقصان سے بچانے وغیرہ کےلئے مدد مانگنا قرآن کریم اور صحیح احادیث اس موضوع سے بھرے پڑے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1646   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.