الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1595
1595. اردو حاشیہ: حدیث 1574 کے فوائد میں گزرچکا ہے۔ کہ ان پر زکواۃ اس صورت میں نہیں ہے۔ جب یہ ذاتی ضرورت کے لئے ہوں۔ لیکن اگر یہ تجارت کےلئے ہوں تو پھر ان پر زکواۃ ہوگی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1595
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 277
´غلام اور گھوڑے پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے` «. . . 299- مالك عن عبد الله بن دينار عن سليمان بن يسار عن عراك بن مالك عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ليس على المسلم فى عبده ولا فرسه صدقة.“ كمل حديث ابن دينار. . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں کوئی صدقہ (زکوٰة) نہیں ہے۔“ عبداللہ بن دینار کی بیان کردہ حدیثیں مکمل ہوئیں . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 277]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 982، من حديث مالك به .] تفقه: ➊ کسی آدمی کے جتنے بھی گھوڑے یا غلام ہوں، ان پر کوئی زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ ➋ گھوڑوں کے سلسلے میں دیکھئے: [الموطأ حديث: 178، 215، والبخاري 2860، 2849، ومسلم 1871/96] ➌ معلوم ہوا کہ زکوٰۃ قت کے حکم سے بعض چیزیں مستثنیٰ ہیں۔ ➍ عام کی تخصیص خاص دلیل سے جائز ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 299
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 487
´غلام اور گھوڑے میں زکاۃ نہیں` ”سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”مسلمان پر نہ اس کے غلام میں زکوٰۃ ہے اور نہ اس کے گھوڑے میں۔“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 487]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا غلام اور گھوڑے میں زکاۃ نہیں، یعنی جو غلام اپنی خدمت کے لیے اور جو گھوڑا اپنی سواری کے لیے مخصوص ہو ان پر کسی قسم کی زکاۃ نہیں، البتہ اگر برائے تجارت ہوں تو ان پر زکاۃ ہو گی۔ جمہور علماء اور اکثر فقہاء کا یہی موقف ہے۔ گھوڑوں پر زکاۃ کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [سنن ابوداود، الزكاة، باب فى زكاة السائمة، حديث: 1574۔ طبع دارالسلام، لاهور]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 487
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1594
´غلام اور لونڈی کی زکاۃ کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑے اور غلام یا لونڈی میں زکاۃ نہیں، البتہ غلام یا لونڈی میں صدقہ فطر ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1594]
1594. اردو حاشیہ: اگر یہ ذاتی مصرف کےلئے ہوں تو زکواۃ نہیں ہے۔ لیکن اگر تجارت کی غرض سے ہوں تو زکواۃ دینی چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1594
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2469
´گھوڑے کی زکاۃ کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکاۃ نہیں ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2469]
اردو حاشہ: یہ حدیث اور دوسری احادیث صراحتاً گھوڑوں میں زکاۃ کی نفی کرتی ہیں، لہٰذا صحیح یہی ہے کہ غلام اور گھوڑا اگر خدمت کے لیے ہوں تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں۔ تبھی تو ان میں کوئی نصاب بھی مقرر نہیں، نیز جو چیز ذاتی ضروریات کے ضمن میں آتی ہو، اس میں زکاۃ نہ ہونا مسلمہ اصول ہے، مگر احناف نے عمومات یا ضعیف روایت سے استدلال کرتے ہوئے ان صریح احادیث کی نفی کی ہے اور گھوڑے میں (خواہ وہ ایک ہی ہو) زکاۃ ثابت کی ہے جو کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں، البتہ تجارت کے گھوڑے اور غلاموں میں قطعاً زکاۃ ہے کیونکہ وہ تجارتی سامان میں شامل ہیں۔ اسی طرح غلام میں صدقۃ الفطر کا ذکر بھی صحیح روایت میں ہے، البتہ گھوڑے میں زکاۃ کے علاوہ دوسرے حقوق ہو سکتے ہیں، مثلا: جہاد میں استعمال کرنا، سواری کے لیے عارضی طور پر کسی کو دینا اور جفتی کے لیے چھوڑ دینا وغیرہ۔ دوسری روایات کو انھی حقوق پر محمول کرنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2469
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2474
´غلاموں کی زکاۃ کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان پر اس کے غلام میں زکاۃ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے گھوڑے میں۔“[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2474]
اردو حاشہ: غلام کے بارے میں تو احناف بھی دیگر جمہور اہل علم کے ساتھ متفق ہیں کہ خدمت والے غلام میں زکاۃ نہیں کیونکہ کسی بھی ذاتی ضروریات کی چیز میں زکاۃ نہیں ہے، البتہ تجارت کے لیے رکھے گئے غلاموں میں زکاۃ ہے کیونکہ وہ تجارتی مال ہیں۔ گھوڑے میں بھی یہی ضابطہ لاگو ہوتا ہے، مگر احناف نے بغیر کسی معقول وجہ کے گھوڑے کا حکم بدل دیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2474
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1812
´گھوڑے اور غلام کی زکاۃ کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان پر اس کے گھوڑے اور غلام میں زکاۃ نہیں ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1812]
اردو حاشہ: فائده: یہ مسئلہ حدیث: 1790 میں بھی گزر چکا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1812
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 628
´گھوڑے اور غلام میں زکاۃ کے نہ ہونے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان پر نہ اس کے گھوڑوں میں زکاۃ ہے اور نہ ہی اس کے غلاموں میں زکاۃ ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 628]
اردو حاشہ: 1؎: اس حدیث کے عموم سے ظاہریہ نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ گھوڑے اورغلام میں مطلقاً زکاۃ واجب نہیں گو وہ تجارت ہی کے لیے کیوں نہ ہوں، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، گھوڑے اور غلام اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان میں زکاۃ بالاجماع واجب ہے جیسا کہ ابن منذر وغیرہ نے اسے نقل کیا ہے، لہذا اجماع اس کے عموم کے لیے مخصص ہو گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 628
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1104
1104- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”مسلمان پر اس کے غلام اور اس کے گھوڑے میں زکوٰۃ لازم نہیں ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1104]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غلام اور گھوڑے پر زکاۃ نہیں ہے، اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی ثابت ہوا کہ ذاتی گاڑی اور ذاتی رہائش وغیرہ پر بھی زکاۃ نہیں ہے لیکن اگر ایسے گھوڑے ہیں جو کرائے پر استعمال ہوتے ہیں یا گھوڑوں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے، اسی طرح گھر اور گاڑیاں کرائے کے لیے ہیں یا ان کی خرید و فروخت کی جاتی ہے، تب ان کی آمدنی پر زکاۃ ہے، اگر وہ نصاب کو پہنچ جائے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1104
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2276
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتےہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ”غلام پر صرف صدقہ الفطر لازم ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:2276]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جمہور علمائے سلف کےنزدیک اپنے گھر کی ضروریات کے لیے رکھے گئے غلام اور گھوڑے پر صدقہ نہیں ہے۔ اگر تجارت کے لیے ہوں تو پھر ظاہریہ کے سوا، سب کے نزدیک ان کی رقم پر صدقہ ہے، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک گھوڑوں پر زکاۃ ہے اگر نسل کشی کے لیے نر اور مادہ دونوں ہوں، تو ہر ایک پر سالانہ ایک دینار 4/1/2 ماشہ سونا) ہے۔ اور صرف ایک جنس ہو تو قیمت پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکاۃ دے یا ہر ایک پر ایک دینار یا دس درہم زکاۃ دے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2276
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1464
1464. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکاۃ نہیں ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1464]
حدیث حاشیہ: اہلحدیث کا محقق مذہب یہی ہے کہ غلاموں اور گھوڑوں میں مطلقاً زکوٰۃ نہیں ہے گو تجارت کے لیے ہوں۔ مگر ابن مندر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان میں زکوٰۃ ہے۔ اصل یہ ہے کہ زکوٰۃ ان ہی جنسوں میں لازم ہے جن کا بیان آنحضرت ﷺ نے فرما دیا۔ یعنی چوپایوں میں سے اونٹ‘ گائے‘ اور بیل بکریوں میں اور نقد مال سے سونے چاندی میں اور غلوں میں سے گیہوں اور جو اور جوار اور میووں میں سے کھجور‘ اور سوکھی انگور میں‘ بس ان کے سوا اور کسی مال میں زکوٰۃ نہیں گو وہ تجارت اور سودا گری ہی کے لیے ہو اور ابن منذر نے جو اجماع اس کے خلاف پر نقل کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ جب ظاہر یہ اور اہلحدیث اس مسئلہ میں مختلف ہیں تو اجماع کیوں کرہوسکتا ہے۔ اور ابوداؤد کی حدیث اور دار قطنی کی حدیث کہ جس مال کو ہم بیچنے کے لیے رکھیں اس میں آپ ﷺ نے زکوٰۃ کا حکم دیا‘ یا کپڑے میں زکوٰۃ ہے ضعیف ہے۔ حجت کے لیے لائق نہیں۔ اور آیت قرآن ﴿خُذ مِن أَموَالَهِم صَدقَة﴾ میں اموال سے وہی مال مراد ہیں جن کی زکوٰۃ کی تصریح حدیث میں آئی ہے۔ یہ امام شوکانی کی تحقیق ہے اور سید علامہ نے اس کی تائید کی ہے۔ اس بناپر جواہر‘ موتی‘ مونگا‘ یاقوت‘ الماس اور دوسری صدہا اشیائے تجارتی میں جیسے گھوڑے، گاڑیاں، کتابیں، کاغذ میں زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔ مگر چونکہ ائمہ اربعہ اور جمہور علماء اموال تجارتی میں وجوب زکوٰۃ کی طرف گئے ہیں، لہٰذا احتیاط اور تقویٰ یہی ہے کہ ان میں سے زکوٰۃ نکالے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1464
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1463
1463. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مسلمان پر اس کے گھوڑے اور غلام میں زکاۃ نہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1463]
حدیث حاشیہ: (1) جو گھوڑے اپنی سواری کے لیے اور غلام خدمت گزاری کے لیے ہوں، ان میں زکاۃ نہیں ہے، البتہ وہ گھوڑے جو بغرض تجارت رکھے ہوں ان کی آمدنی میں زکاۃ دینا ضروری ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے غالبا اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے گھوڑوں اور غلاموں سے زکاۃ کو معاف کر دیا ہے لیکن چاندی وغیرہ سے ضرور زکاۃ ادا کرو۔ “(سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1574)(2) لیکن اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ گھوڑوں میں اونٹ، گائے اور بکریوں کی طرح ایک خاص شرح سے زکاۃ فرض نہیں، البتہ بغرض تجارت رکھے ہوں تو ان کی آمدنی پر زکاۃ دینی ہو گی، جیسا کہ ابن منذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (فتح الباري: 412/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1463
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1464
1464. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکاۃ نہیں ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1464]
حدیث حاشیہ: صحیح مسلم میں ہے کہ غلام میں صدقہ فطر کے علاوہ اور کوئی زکاۃ نہیں۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2276(982) اس کا مطلب یہ ہے کہ صحیح بخاری کی مطلق روایت کو صدقہ فطر کی روایت سے مقید کرنا ہو گا، اسی طرح اگر غلام تجارت کے لیے ہوں اور ان سے حاصل شدہ آمدنی اگر جمع ہو جائے اور سال گزر جائے تو دیگر اموال تجارت کی طرح ان کی بھی زکاۃ دی جائے گی، نیز زکاۃ دیتے وقت ان غلاموں کی بھی قیمت لگا کر آمدنی میں جمع کر کے پھر اڑھائی فیصد کے حساب سے زکاۃ دینی ہو گی۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1464