Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كتاب سجود القرآن
کتاب: سجدہ تلاوت کے احکام و مسائل
6. باب فِي الرَّجُلِ يَسْمَعُ السَّجْدَةَ وَهُوَ رَاكِبٌ وَفِي غَيْرِ الصَّلاَةِ
باب: سوار یا وہ شخص جو نماز میں نہ ہو سجدے کی آیت سنے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 1413
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفُرَاتِ أَبُو مَسْعُودٍ الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ عَلَيْنَا الْقُرْآنَ، فَإِذَا مَرَّ بِالسَّجْدَةِ كَبَّرَ وَسَجَدَ وَسَجَدْنَا". قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: وَكَانَ الثَّوْرِيُّ يُعْجِبُهُ هَذَا الْحَدِيثُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: يُعْجِبُهُ لِأَنَّهُ كَبَّرَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو قرآن سناتے، جب کسی سجدے کی آیت سے گزرتے تو الله أكبر کہتے اور سجدہ کرتے اور آپ کے ساتھ ہم بھی سجدہ کرتے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں: یہ حدیث ثوری کو اچھی لگتی تھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: انہیں یہ اس لیے پسند تھی کہ اس میں الله أكبر کا ذکر ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف:7726) (منکر)» ‏‏‏‏ (سجدہ کے لئے تکبیر کا تذکرہ منکر ہے، نافع سے روایت کرنے والے عبداللہ العمری ضعیف ہیں، بغیر تکبیر کے تذکرے کے یہ حدیث ثابت ہے جیسا کہ پچھلی حدیث میں ہے، البتہ دوسروے دلائل سے تکبیر ثابت ہے)

قال الشيخ الألباني: منكر والمحفوظ دونه

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (1032)
عبد الله العمري حسن الحديث عن نافع، ضعيف الحديث عن غيره

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1413 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1413  
1413. اردو حاشیہ: اس سے معلوم ہوا کہ سجدہ سے جاتے اور اٹھتے وقت تکبیر کہنی چاہیے۔ لیکن شیخ البانی ؒ کے نزدیک اس میں تکبیر کا ذکر منکر ہے۔ تکبیرکے بغیر صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1413   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1412  
´سوار یا وہ شخص جو نماز میں نہ ہو سجدے کی آیت سنے تو کیا کرے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سورۃ پڑھ کر سناتے (ابن نمیر کی روایت میں ہے) نماز کے علاوہ میں (آگے یحییٰ بن سعید اور ابن نمیر سیاق حدیث میں متفق ہیں)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (سجدہ کی آیت آنے پر) سجدہ کرتے، ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے یہاں تک کہ ہم میں سے بعض کو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ مل پاتی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1412]
1412. اردو حاشیہ:
➊ حافظ ابن حجر ؒنے فتح الباری میں طبرانی کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ کہ اذدحام کی وجہ سے اگر کسی کو سجدہ کرنے کی جگہ نہ ملتی۔ تو وہ اپنے ساتھی کی کمر پر ہی سجدہ کرلیتا۔ [فتح الباري:723/2]
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب قاری اور سامع نماز میں نہ ہوں۔ تو ان دونوں کا آپس میں ربط ضروری نہیں۔ خواہ کوئی لمبا سجدہ کرے۔ اور دوسرا مختصر ایک پہلے اٹھ جائے۔ اور دوسرا بعد میں اس طرح اگر پڑھنے والا سجدہ نہ بھی کرے۔ تو سننے والا کرسکتا ہے۔ با وضو ہو یا بے وضو مرد ہو عورت یا بچہ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1412   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 276  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
‏‎‍ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے۔ جب آیت سجدہ پر سے گزرتے تو اللہ اکبر کہ کر سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی سجدہ کرتے۔
ابوداؤد نے اسے کمزور سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 276»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب في الرجل يسمع السجده وهو راكب، حديث:1413.* عبدالله بن عمر العمري ضعيف لكنه حسن الحديث عن نافع.»
تشریح:
1. امام حاکم نے اس روایت کو عبیداللہ عمری کے حوالے سے نقل کیا ہے جسے انھوں نے ثقہ کہا ہے‘ اور اس حدیث کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر ہے۔
اور ابوداود کی روایت جسے متن میں بیان کیا گیا ہے عبداللہ اکبر کی ہے‘ وہ ضعیف راوی ہے۔
مستدرک حاکم کی روایت جسے امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث شیخین کی شرط پر ہے اس میں تکبیر کا ذکر نہیں ہے۔
غالباً اسی وجہ سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت کی بابت لکھا ہے کہ اس میں تکبیر کا ذکر منکر ہے۔
تکبیر کے بغیر مذکورہ روایت صحیح ہے جیسا کہ امام حاکم نے بھی تکبیر کے بغیر والی روایت ہی کو صحیح قرار دیا ہے۔
2. سجدۂ تلاوت بھی سجدۂ نماز ہی کی طرح ہے‘ لہٰذا افضل یہ ہے کہ آدمی سیدھا کھڑا ہو کر پھر سجدے کے لیے جھکے اور سات اعضاء پر سجدہ کرے۔
اور اگر اٹھ کر سیدھا کھڑے ہوئے بغیر‘ بیٹھے بیٹھے ہی سجدہ کر دے تو بھی جائز ہے۔
سجدے کو جاتے اور سجدے سے سر اٹھاتے وقت اللہ اکبر کہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نماز میں ہر دفع نیچے جھکتے اور اوپر اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے تھے‘ جب سجدے سے سر اٹھاتے تو بھی اللہ اکبر کہتے۔
(سنن النسائي‘ التطبیق‘ حدیث:۱۱۵۰‘ ۱۱۵۱) حضرت ابوہریرہ اور کئی دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔
چونکہ سجدۂ تلاوت بھی نماز کی طرح ہے اور دلائل سے یہی ظاہر ہوتا ہے‘ لہٰذا اس کے لیے بھی اللہ اکبر کہا جائے لیکن نماز سے باہر سجدہ کرنے کی صورت میں صرف سجدے کے آغاز میں اللہ اکبر کہنا مروی ہے اور یہی طریقہ معروف ہے جیسا کہ مذکورہ روایت میں ہے۔
نماز کے علاوہ سجدے سے سراٹھاتے وقت اللہ اکبر اور بعد میں سلام پھیرنا مروی نہیں۔
3.بعض اہل علم کا موقف ہے کہ سجدے کو جاتے ہوئے اللہ اکبرکہے اور فارغ ہو کر سلام پھیرے۔
لیکن اس موقف کے حاملین کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں ہے‘ اس لیے سجدہ کو جاتے ہوئے اللہ اکبر اور فراغت کے بعد سلام کہنا ضروری نہیں‘ ہاں اگر کوئی دیگر عمومات سے استدلال کرتے ہوئے صرف جواز کو اپناتا ہے اور تکبیر وغیرہ کہہ لیتا ہے تو شرعاً کوئی حرج نہیں۔
واللّٰہ أعلم۔
سجدۂ تلاوت قاری اور سامع (پڑھنے اور سننے والے) کے لیے سنت ہے۔
اگر قاری سجدہ کرے تو سامع کو بھی قاری کی اتباع میں سجدہ کرنا چاہیے۔
4.افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ سجدۂ تلاوت باوضو اور قبلہ رو ہو کر کیا جائے۔
5.سجدۂ تلاوت کی معروف دعا «سَجَدَ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ خَلَقَہُ وَ صَوَّرَہُ وَ شَقَّ سَمْعَہُ وَ بَصَرَہُ‘ تَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ» (صحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ حدیث:۷۷۱) کا سجدۂ نماز میں پڑھنا تو صحیح ثابت ہے مگر سجدۂ قرآن میں اس کا پڑھنا صحیح سند سے ثابت نہیں۔
تاہم ایک دوسری دعا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے‘ وہ یہ ہے: «اَللّٰھُمَّ اکْتُبْ لِي بِھَا عِنْدَکَ أَجْرًا‘ وَضَعْ عَنِّي بِھَا وِزْرًا وَاجْعَلْھَا لِي عِنْدَکَ ذُخْرًا‘ وَتَقَبَّلْھَا مِنِّي کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ عَبْدِکَ دَاوُدَ» (جامع الترمذي‘ الجمعۃ‘ باب ماجاء مایقول في سجود القرآن‘ حدیث:۵۷۹‘ وسنن ابن ماجہ ‘ حدیث: ۱۰۵۳‘ وصحیح ابن خزیمۃ‘ حدیث:۵۶۲‘ ۵۶۳) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
(فتوحات ربانیہ: ۲ /۲۷۶) نیز امام ابن خزیمہ‘ حاکم‘ ابن حبان‘ شیخ احمد شاکر اور شیخ البانی رحمہم اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے‘ لہٰذا اس دعا کو سجدۂ تلاوت میں پڑھنا چاہیے۔
(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: سنن ابوداود (اُردو) مطبوعہ دارالسلام) جلد دوم‘ حدیث:۱۴۱۴ کے فوائد۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 276   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1076  
1076. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ آیت سجدہ تلاوت فرماتے اور ہم آپ کے پاس ہوتے، آپ سجدہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے۔ اس وقت اتنا رش ہو جاتا کہ ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہ پاتا کہ وہاں سجدہ کر سکے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1076]
حدیث حاشیہ:
اسی حدیث سے بعضوں نے یہ نکالاکہ جب پڑھنے والا سجدہ کرے تو سننے والا بھی کرے گویا اس سجدے میں سننے والا مقتدی ہے اور پڑھنے والا امام ہے۔
بیہقی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا جب لوگوں کا بہت ہجوم ہوتو تم میں کوئی اپنے بھائی کی پشت پر بھی سجدہ کر سکتا ہے۔
قسطلانی نے کہا جب ہجوم کی حالت میں فرض نماز میں پیٹھ پر سجدہ کرنا جائز ہوا تو تلاوت قرآن پاک کا سجدہ ایسی حالت میں بطریق اولی جائز ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1076   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1075  
1075. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ہمارے سامنے جب وہ سورت تلاوت کرتے جس میں سجدہ ہوتا تو آپ خود بھی سجدہ کرتے اور ہم بھی سجدہ کرتے تھے یہاں تک کہ بھیڑ کی وجہ سے بعض لوگوں کو پیشانی رکھنے کی بھی جگہ نہیں ملتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1075]
حدیث حاشیہ:
(1)
ممکن ہے امام بخاری ؒ کا رجحان اس طرف ہو کہ جب قاری سجدہ کرے تو سامع کو سجدہ کرنا چاہیے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے اثر سے معلوم ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک مرفوع روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ ایک لڑکے نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیت سجدہ تلاوت کی، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرنے لگا کہ آپ کب سجدہ کرتے ہیں، جب آپ نے سجدہ نہ کیا تو عرض کرنے لگا:
اس آیت میں سجدہ ضروری نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا:
کیوں نہیں لیکن تو اس سلسلے میں امام ہے، اگر تو سجدہ کرتا ہے تو ہم بھی کرتے۔
اسے ابن ابی شیبہ نے بیان کیا ہے۔
اس کے سب راوی ثقہ ہیں لیکن یہ روایت مرسل ہے۔
(2)
اس سلسلے میں جمہور کا موقف یہ ہے کہ سننے والے کو ہر حالت میں سجدہ کرنا چاہیے، خواہ پڑھنے والا سجدہ کرے یا نہ کرے۔
وہ بے وضو ہو یا نابالغ یا عورت ہو، بہرحال آیت سجدہ سننے والے کو چاہیے کہ وہ سجدہ کرے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:
اس مسئلے میں مختلف مذاہب ہیں:
بعض حضرات کے نزدیک سننے والے پر سجدۂ تلاوت واجب ہے، خواہ پڑھنے والا کرے یا نہ کرے، خواہ سننے والے کے کان میں اتفاقاً آیت سجدہ کی آواز پڑ جائے یا قصداً اسے سماعت کرے، لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ جب تلاوت کرنے والا آیت سجدہ پڑھے تو سننے والا اس وقت سجدہ کرنے کا پابند ہو گا جب وہ سننے کا ارادہ کرے۔
اتفاقاً کان میں آواز پڑ جانے سے سجدہ ضروری نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1075   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1076  
1076. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ آیت سجدہ تلاوت فرماتے اور ہم آپ کے پاس ہوتے، آپ سجدہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے۔ اس وقت اتنا رش ہو جاتا کہ ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہ پاتا کہ وہاں سجدہ کر سکے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1076]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں حتمی طور پر کوئی حکم واضح نہیں کیا۔
شاید آپ کا مقصود یہ ہے کہ سجدۂ تلاوت حتمی ہے جسے کسی عذر کی وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے بعد اس سے ملتا جلتا ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
(باب من لم يجد موضعا للسجود من الزحام)
جو شخص بوجۂ ہجوم سجدۂ تلاوت کے لیے جگہ نہ پائے۔
معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ باب میں ایسے حالات میں سجدے کا حکم بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ایسا شخص کیا کرے؟ آیا وہ کسی دوسرے وقت تک سجدے کو مؤخر کر دے یا دوسرے کی پیٹھ ہی پر سجدہ کر دے یا ایسے حالات میں سجدہ ساقط ہو جائے گا؟ ان مذکورہ بالا تینوں احتمالات میں سے کسی کو متعین نہیں کیا بلکہ اسے مبہم رکھا ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ کے عنوان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں بقدر استطاعت سجدہ کرے اگرچہ دوسرے کی پشت ہی پر کیوں نہ ہو۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1076   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1079  
1079. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کوئی ایسی سورت تلاوت کرتے جس میں سجدہ ہوتا تو سجدہ فرماتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے حتی کہ ہم میں سے کچھ لوگوں کو پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہیں ملتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1079]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام مسلم ؒ نے یہ اضافہ بیان فرمایا ہے کہ اس قدر رش وقت نماز کے علاوہ ہوتا تھا۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1296(575) (2)
حضرت ابن عمر ؓ نے وضاحت نہیں فرمائی کہ ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے۔
اس بنا پر علمائے امت میں اختلاف ہوا۔
امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ اگر ہجوم کی وجہ سے زمین پر پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہ مل سکے تو لوگوں کی پشت پر سجدہ کر لینا جائز ہے جبکہ امام مالک ؒ کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں انتظار کرنا چاہیے، جب لوگ سجدے سے اپنا سر اٹھائیں تو دوسرے سجدہ کر لیں لیکن طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ جب لوگوں کو رش کی وجہ سے جگہ نہ ملتی تو دوسروں کی پشت پر سجدہ کر لیتے۔
اس سے امام بخاری ؒ کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ آدمی کو اپنی استطاعت کے مطابق سجدہ کرنا چاہیے اگرچہ اپنے بھائی کی پشت ہی پر کرنا پڑے۔
(فتح الباري: 723/2)
اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے حالات میں سجدۂ تلاوت کی ادائیگی فوراً ضروری نہیں، اسے بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
(4)
رسول اللہ ﷺ نماز میں جھکتے اور اٹھتے وقت اللہ أکبر کہتے تھے، اس لیے سجدۂ تلاوت کے لیے جھکتے وقت بھی اللہ أکبر کہنا چاہیے۔
اس سلسلے میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں۔
اسی طرح سجدۂ تلاوت کے لیے کھڑے ہو کر ہاتھ باندھنا اور سجدۂ تلاوت سے فراغت کے بعد سلام پھیرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔
(5)
سجدۂ تلاوت میں یہ دعا پڑھنی چاہیے:
(اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ) (جامع الترمذي، الجمعة، حدیث: 579)
اگر یہ دعا یاد نہ ہو تو درج ذیل دعا بھی پڑھی جا سکتی ہے:
(سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ فتباركَ اللهُ أَحسَنُ الخالِقِينَ) (سنن أبي داود، سجود القرآن، حدیث: 1414)
"فتباركَ اللهُ أَحسَنُ الخالِقِينَ" کے الفاظ مستدرک حاکم میں ہیں۔
(المستدرك للحاکم: 220/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1079