سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جو شخص اپنے کاموں میں سے کوئی کام بھول جائے یا چھوڑ دے تو ایک دم دے (یعنی قربانی)۔ ایوب نے کہا: مجھے یاد نہیں سعید نے بھول جائے کہا یا چھوڑ دے کہا۔
قال مالك: ما كان من ذلك هديا، فلا يكون إلا بمكة، وما كان من ذلك نسكا فهو يكون حيث احب صاحب النسك قَالَ مَالِك: مَا كَانَ مِنْ ذَلِكَ هَدْيًا، فَلَا يَكُونُ إِلَّا بِمَكَّةَ، وَمَا كَانَ مِنْ ذَلِكَ نُسُكًا فَهُوَ يَكُونُ حَيْثُ أَحَبَّ صَاحِبُ النُّسُكِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اس دم میں سے جو ہدی ہو وہ تو خواہ مخواہ مکہ میں جائے گی، جو کوئی اور عبادت ہو تو اختیار ہے جہاں چاہے کرے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص چاہے ایسے کپڑے پہننا جو احرام میں درست نہیں ہیں، یا بال کم کرنا چاہے، یا خوشبو لگانا چاہے بغیر ضرورت کے، فدیہ کو آسان سمجھ کر، تو یہ جائز نہیں ہے، بلکہ رخصت ضرورت کے وقت ہے، جو کوئی ایسا کرے فدیہ دے۔
سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے کہ الله تعالی نے جو فرمایا: «﴿فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ﴾» تو اس شخص کو اختیار ہے اس میں؟ اور نسک کیا چیز ہے؟ اور طعام کتنا واجب ہے؟ اور کس مد سے چاہیے؟ اور روزے کتنے چاہئیں؟ اور اس میں تاخیر کرنا درست ہے یا فی الفور کرنا چاہیے؟ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا: جتنے کفاروں میں اللہ جل جلالہُ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ یا یہ ہو یا یہ ہو، اس میں اختیار ہے جونسا امر چاہے کرے، اور نسک سے ایک بکری مراد ہے، اور روزے سے تین روز ے مقصود ہیں، اور طعام سے چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا منظور ہے، ہر مسکین کو دو مد دینا چاہیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اور سنا میں نے بعض اہلِ علم سے، کہتے تھے کہ اگر محرم نے کسی چیز کو کچھ مارا اور وہ کسی جانور چرند یا پرند کو جو شکاری ہے جا لگا، اور وہ مر گیا، مگر محرم کا ارادہ اس کے مارنے کا نہ تھا، تو اس پر فدیہ لازم ہو گا، کیونکہ قصد اور خطا دونوں اس باب میں یکساں ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر چند لوگ مل کر ایک شکار ماریں، اور سب احرام باندھے ہوں، تو ہر ایک شخص پر ان میں سے جزاء لازم ہوگی، اور ہر ایک کو پوری جزاء دینی ہوگی، اگر ان پر ہدی کا حکم ہوگا تو ہر ایک کو ہدی دینا ہوگی، اگر روزوں کا حکم ہوگا تو ہر ایک کو روزہ رکھنا ہو گا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ چند آدمی مل کر ایک شخص کو خطا سے مار ڈالیں، تو کفارہ قتل کا یعنی ایک غلام آزاد کرنا ہر ایک پر واجب ہوگا، یا دو مہینے پے در پے روزے ہر ایک کو رکھنے ہوں گے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جس شخص نے شکار مارا بعد کنکریاں مارنے کے اور سر منڈانے سے قبل طواف الافاضہ کے، تو اس پر جزاء اس شکار کی لازم ہوگی، کیونکہ الله تعالی نے فرمایا ہے: «﴿وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا﴾» یعنی ”جب تم احرام کھول ڈالو تو شکار کرو۔“ اور جس شخص نے طوافِ افاضہ نہیں کیا اس کا پورا احرام نہیں کھلا، کیونکہ اس کو صحبت عورتوں سے اور خوشبو لگانا درست نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص حج میں تین روزے رکھنا بھول جائے، یا بیماری کی وجہ سے نہ رکھ سکے، یہاں تک کہ اپنے شہر چلا جائے، تو اس کو اگر ہدی کی قدرت ہو تو ہدی دے، ورنہ تین روز ے اپنے گھر میں رکھ کر پھر سات روزے رکھے۔