وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن هشام بن عروة ، ان عبد الله بن الزبير اقام بمكة تسع سنين، وهو يهل بالحج لهلال ذي الحجة وعروة بن الزبير معه يفعل ذلك" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ أَقَامَ بِمَكَّةَ تِسْعَ سِنِينَ، وَهُوَ يُهِلُّ بِالْحَجِّ لِهِلَالِ ذِي الْحِجَّةِ وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ مَعَهُ يَفْعَلُ ذَلِكَ"
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نو برس مکے میں رہے، جب چاند دیکھتے ذی الحجہ کا تو احرام باندھ لیتے اور حضرت عروہ بن زبیر بھی ایسا ہی کرتے۔
قال مالك: وإنما يهل اهل مكة وغيرهم بالحج إذا كانوا بها، ومن كان مقيما بمكة من غير اهلها من جوف مكة لا يخرج من الحرم قَالَ مَالِك: وَإِنَّمَا يُهِلُّ أَهْلُ مَكَّةَ وَغَيْرُهُمْ بِالْحَجِّ إِذَا كَانُوا بِهَا، وَمَنْ كَانَ مُقِيمًا بِمَكَّةَ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهَا مِنْ جَوْفِ مَكَّةَ لَا يَخْرُجُ مِنَ الْحَرَمِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو لوگ مکہ کے رہنے والے ہیں یا مکہ میں پہلے سے مقیم ہیں مگر وہاں کے باشندے نہیں تو وہ حرم سے احرام باند ھیں۔
قال يحيى: قال مالك: ومن اهل من مكة بالحج فليؤخر الطواف بالبيت والسعي بين الصفا، والمروة حتى يرجع من منى وكذلك صنع عبد الله بن عمرقَالَ يَحْيَى: قَالَ مَالِك: وَمَنْ أَهَلَّ مِنْ مَكَّةَ بِالْحَجِّ فَلْيُؤَخِّرِ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ وَالسَّعْيَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ حَتَّى يَرْجِعَ مِنْ مِنًى وَكَذَلِكَ صَنَعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جو شخص مکہ سے احرام حج کا باندھے تو وہ طواف اور سعی نہ کرے جب تک منیٰ سے نہ لوٹے، اور ایسا ہی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کیا تھا۔
وسئل مالك، عمن اهل بالحج من اهل المدينة او غيرهم من مكة لهلال ذي الحجة كيف يصنع بالطواف؟ قال: اما الطواف الواجب فليؤخره وهو الذي يصل بينه، وبين السعي بين الصفا، والمروة وليطف ما بدا له وليصل ركعتين كلما طاف سبعا، وقد فعل ذلك اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الذين اهلوا بالحج، فاخروا الطواف بالبيت والسعي بين الصفا، والمروة حتى رجعوا من منى، وفعل ذلك عبد الله بن عمر، فكان يهل لهلال ذي الحجة بالحج من مكة، ويؤخر الطواف بالبيت والسعي بين الصفا، والمروة حتى يرجع من منى. وَسُئِلَ مَالِك، عَمَّنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ أَوْ غَيْرِهِمْ مِنْ مَكَّةَ لِهِلَالِ ذِي الْحِجَّةِ كَيْفَ يَصْنَعُ بِالطَّوَافِ؟ قَالَ: أَمَّا الطَّوَافُ الْوَاجِبُ فَلْيُؤَخِّرْهُ وَهُوَ الَّذِي يَصِلُ بَيْنَهُ، وَبَيْنَ السَّعْيِ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ وَلْيَطُفْ مَا بَدَا لَهُ وَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ كُلَّمَا طَافَ سُبْعًا، وَقَدْ فَعَلَ ذَلِكَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ أَهَلُّوا بِالْحَجِّ، فَأَخَّرُوا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ وَالسَّعْيَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ حَتَّى رَجَعُوا مِنْ مِنًى، وَفَعَلَ ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، فَكَانَ يُهِلُّ لِهِلَالِ ذِي الْحِجَّةِ بِالْحَجِّ مِنْ مَكَّةَ، وَيُؤَخِّرُ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ وَالسَّعْيَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ حَتَّى يَرْجِعَ مِنْ مِنًى.
سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے: جو لوگ اور ملک کے رہنے والے ہیں انہوں نے اگر احرام حج کا مکہ سے باندھا ذوالحجہ کا چاند دیکھ کر، تو وہ فرض طواف کیسے کریں؟ کہا: وہ فرض طواف (طواف الزیارۃ) کی تاخیر کریں، اور وہ طواف ہے جس کے بعد سعی ہوتی ہے صفا اور مروہ کے درمیان میں، اور نفل طواف جتنا چاہے گا کرے۔ لیکن ہر طواف کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرے اور ایسا ہی کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے، احرام حج کا مکہ سے باندھا سو انہوں نے تاخیر کی طواف اور سعی کی یہاں تک کہ لوٹے منیٰ سے اور ایسا ہی کیا سیدنا عبدللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، وہ بھی ذی الحجہ کا چاند دیکھ کر احرام باندھتے تھے حج کا مکہ سے، اور تاخیر کرتے طواف اور سعی کی منیٰ سے لوٹنے تک۔
وسئل مالك، عن رجل من اهل مكة هل يهل من جوف مكة بعمرة، قال: بل يخرج إلى الحل فيحرم منهوَسُئِلَ مَالِك، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ هَلْ يُهِلُّ مِنْ جَوْفِ مَكَّةَ بِعُمْرَةٍ، قَالَ: بَلْ يَخْرُجُ إِلَى الْحِلِّ فَيُحْرِمُ مِنْهُ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: مکہ والے کو عمرہ کا احرام باندھنا حرم سے درست نہیں ہے، بلکہ حل سے احرام باندھنا ضروری ہے۔