وحدثني، عن مالك، عن محمد بن عبد الرحمن ، عن سليمان بن يسار ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حجة الوداع " خرج إلى الحج، فمن اصحابه من اهل بحج، ومنهم من جمع الحج والعمرة، ومنهم من اهل بعمرة فقط، فاما من اهل بحج او جمع الحج والعمرة فلم يحلل، واما من كان اهل بعمرة فحلوا" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ " خَرَجَ إِلَى الْحَجِّ، فَمِنْ أَصْحَابِهِ مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ، وَمِنْهُمْ مَنْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ فَقَطْ، فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ أَوْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَلَمْ يَحْلِلْ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ فَحَلُّوا"
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے حجۃ الوداع کے سال میں حج کرنے کو، تو اُن کے بعض اصحاب نے احرام باندھا حج کا، اور بعض نے حج اور عمرہ دونوں کا، اور بعض نے صرف عمرہ کا۔ سو جس شخص نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج اور عمرہ دونوں کا، اس نے احرام نہ کھولا، اور جس نے عمرہ کا صرف احرام باندھا تھا اس نے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالا۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح لغيره، وله شواهد من حديث عائشة بنت أبى بكر الصديق، فأما حديث عائشة بنت أبى بكر الصديق أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 319، 1562، 1786، 4408، 4408 م، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1211، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2717، 2993، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24710، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3926، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2605، والحميدي فى «مسنده» برقم: 205، 207، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3682، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4652، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1788، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 41»
وحدثني، عن مالك، انه سمع بعض اهل العلم يقولون: من اهل بعمرة، ثم بدا له ان يهل بحج معها، فذلك له ما لم يطف بالبيت وبين الصفا، والمروة وقد صنع ذلك ابن عمر، حين قال: إن صددت عن البيت صنعنا كما صنعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم التفت إلى اصحابه، فقال: ما امرهما إلا واحد اشهدكم اني اوجبت الحج مع العمرة وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ سَمِعَ بَعْضَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَقُولُونَ: مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يُهِلَّ بِحَجٍّ مَعَهَا، فَذَلِكَ لَهُ مَا لَمْ يَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ وَقَدْ صَنَعَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ، حِينَ قَالَ: إِنْ صُدِدْتُ عَنْ الْبَيْتِ صَنَعْنَا كَمَا صَنَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: مَا أَمْرُهُمَا إِلَّا وَاحِدٌ أُشْهِدُكُمْ أَنِّي أَوْجَبْتُ الْحَجَّ مَعَ الْعُمْرَةِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے سنا بعض اہلِ علم سے، کہتے تھے: جس نے عمرہ کا احرام باندھا پھر اس کو یہ بھلا معلوم ہوا کہ حج کا بھی احرام عمرہ کے ساتھ باندھ لے، یہ جائز ہے جب تک اس نے طواف خانۂ کعبہ کا اور سعی صفا مروہ میں نہ کی ہو، اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایسا ہی کیا ہے، جب انہوں نے کہا کہ میں روکا جاؤں گا خانۂ کعبہ سے تو جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے ویسا ہی میں بھی کروں گا، پھر اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ حج اور عمرہ کا حال یکساں ہے، تو میں تم کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج کی نیت بھی کر لی۔
قال مالك: وقد اهل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حجة الوداع بالعمرة، ثم قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من كان معه هدي فليهلل بالحج مع العمرة، ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا"قَالَ مَالِك: وَقَدْ أَهَلَّ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَةِ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُهْلِلْ بِالْحَجِّ مَعَ الْعُمْرَةِ، ثُمَّ لَا يَحِلُّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا"
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے حجۃ الوداع کے سال عمرہ کا احرام باندھا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ ہدی ہو وہ حج کا بھی احرام باندھ لے، پھر احرام نہ کھولے یہاں تک کہ حج اور عمرہ دونوں سے فارغ ہو۔“