قال مالك: الامر الذي لا اختلاف فيه عندنا في الدين، ان صاحبه لا يزكيه حتى يقبضه، وإن اقام عند الذي هو عليه سنين ذوات عدد، ثم قبضه صاحبه لم تجب عليه إلا زكاة واحدة، فإن قبض منه شيئا لا تجب فيه الزكاة، فإنه إن كان له مال سوى الذي قبض تجب فيه الزكاة، فإنه يزكى مع ما قبض من دينه ذلك، قال: وإن لم يكن له ناض غير الذي اقتضى من دينه، وكان الذي اقتضى من دينه لا تجب فيه الزكاة فلا زكاة عليه فيه، ولكن ليحفظ عدد ما اقتضى فإن اقتضى بعد ذلك عدد ما تتم به الزكاة مع ما قبض قبل ذلك فعليه فيه الزكاة قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا فِي الدَّيْنِ، أَنَّ صَاحِبَهُ لَا يُزَكِّيهِ حَتَّى يَقْبِضَهُ، وَإِنْ أَقَامَ عِنْدَ الَّذِي هُوَ عَلَيْهِ سِنِينَ ذَوَاتِ عَدَدٍ، ثُمَّ قَبَضَهُ صَاحِبُهُ لَمْ تَجِبْ عَلَيْهِ إِلَّا زَكَاةٌ وَاحِدَةٌ، فَإِنْ قَبَضَ مِنْهُ شَيْئًا لَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، فَإِنَّهُ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ سِوَى الَّذِي قُبِضَ تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، فَإِنَّهُ يُزَكَّى مَعَ مَا قَبَضَ مِنْ دَيْنِهِ ذَلِكَ، قَالَ: وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ نَاضٌّ غَيْرُ الَّذِي اقْتَضَى مِنْ دَيْنِهِ، وَكَانَ الَّذِي اقْتَضَى مِنْ دَيْنِهِ لَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ فَلَا زَكَاةَ عَلَيْهِ فِيهِ، وَلَكِنْ لِيَحْفَظْ عَدَدَ مَا اقْتَضَى فَإِنِ اقْتَضَى بَعْدَ ذَلِكَ عَدَدَ مَا تَتِمُّ بِهِ الزَّكَاةُ مَعَ مَا قَبَضَ قَبْلَ ذَلِكَ فَعَلَيْهِ فِيهِ الزَّكَاةُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک اس حکم میں اختلاف نہیں کہ قرض کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے جب تک وہ وصول نہ ہو جائے۔ سو اگر قرض قرضدار پر کئی برس تک رہا، پھر وصول ہوا تو ایک ہی سال کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اگر جتنا قرض وصول ہوا ہے وہ نصاب سے کم ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب نہ ہوگی مگر اس صورت میں کہ اس شخص کے پاس اور مال بھی ہو، سو اس میں ملا کر اس کی بھی زکوٰۃ دے، اگر اس کے پاس اور کوئی مال نقد نہ ہو لیکن مدیوں پر اور قرض باقی ہو تو ابھی زکوٰۃ واجب نہ ہوگی لیکن جس قدر وصول ہوا ہے اس کو یاد رکھے۔ بعد اس کے اگر اتنا وصول ہوا کہ نصاب پورا ہوگیا اس وقت زکوٰۃ لازم ہوگی۔ اگر اس نے اس مال کو جو پیشتر وصول ہوا تھا تلف کر دیا تب بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔
قال: فإن كان قد استهلك ما اقتضى اولا، او لم يستهلكه فالزكاة واجبة عليه، مع ما اقتضى من دينه فإذا بلغ ما اقتضى عشرين دينارا عينا، او مائتي درهم فعليه فيه الزكاة، ثم ما اقتضى بعد ذلك من قليل او كثير فعليه الزكاة بحسب ذلك قَالَ: فَإِنْ كَانَ قَدِ اسْتَهْلَكَ مَا اقْتَضَى أَوَّلًا، أَوْ لَمْ يَسْتَهْلِكْهُ فَالزَّكَاةُ وَاجِبَةٌ عَلَيْهِ، مَعَ مَا اقْتَضَى مِنْ دَيْنِهِ فَإِذَا بَلَغَ مَا اقْتَضَى عِشْرِينَ دِينَارًا عَيْنًا، أَوْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَعَلَيْهِ فِيهِ الزَّكَاةُ، ثُمَّ مَا اقْتَضَى بَعْدَ ذَلِكَ مِنْ قَلِيلٍ أَوْ كَثِيرٍ فَعَلَيْهِ الزَّكَاةُ بِحَسَبِ ذَلِكَ
جب بعد کو اس قدر وصول ہو گیا کہ اس سے نصاب پورا ہو جائے، پھر جب اس کو بیس دینار یا دو سو درہم کے موافق وصول ہو گیا تو زکوٰۃ لازم ہوگی، اب اس کے بعد کسی قدر قلیل یا کثیر وصول کرے، زکوٰۃ اس کے حساب سے بڑھتی جائے گی۔
قال مالك: والدليل على الدين يغيب اعواما ثم يقتضى فلا يكون فيه إلا زكاة واحدة، ان العروض تكون عند الرجل للتجارة اعواما ثم يبيعها فليس عليه في اثمانها إلا زكاة واحدة، وذلك انه ليس على صاحب الدين او العروض ان يخرج زكاة ذلك الدين او العروض من مال سواه، وإنما يخرج زكاة كل شيء منه، ولا يخرج الزكاة من شيء عن شيء غيره قَالَ مَالِك: وَالدَّلِيلُ عَلَى الدَّيْنِ يَغِيبُ أَعْوَامًا ثُمَّ يُقْتَضَى فَلَا يَكُونُ فِيهِ إِلَّا زَكَاةٌ وَاحِدَةٌ، أَنَّ الْعُرُوضَ تَكُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ لِلتِّجَارَةِ أَعْوَامًا ثُمَّ يَبِيعُهَا فَلَيْسَ عَلَيْهِ فِي أَثْمَانِهَا إِلَّا زَكَاةٌ وَاحِدَةٌ، وَذَلِكَ أَنَّهُ لَيْسَ عَلَى صَاحِبِ الدَّيْنِ أَوِ الْعُرُوضِ أَنْ يُخْرِجَ زَكَاةَ ذَلِكَ الدَّيْنِ أَوِ الْعُرُوضِ مِنْ مَالٍ سِوَاهُ، وَإِنَّمَا يُخْرِجُ زَكَاةَ كُلِّ شَيْءٍ مِنْهُ، وَلَا يُخْرِجُ الزَّكَاةَ مِنْ شَيْءٍ عَنْ شَيْءٍ غَيْرِهِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جو ہم نے بیان کیا کہ دَین کئی برس تک وصول نہیں ہوتا، پھر وصول ہو تو ایک سال کی زکوٰۃ لازم ہوگی، اس پر دلیل یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس مالِ تجارت برسوں تک رہتا ہے، جب اس کو بیچتا ہے تو اس کے زرِ ثمن پر ایک ہی زکوٰۃ واجب ہوگی، اس لیے کہ صاحبِ دَین یا صاحبِ مال پر یہ امر لازم نہیں کہ زکوٰۃ اس مال کی یا دَین کی دوسرے مال سے نکالے، بلکہ زکوٰۃ ہر مال کی اسی مال سے نکالی جائے، نہ یہ کہ زکوٰۃ ایک شے کی دوسری شے میں سے دی جائے۔
قال مالك: الامر عندنا في الرجل يكون عليه دين وعنده من العروض ما فيه وفاء لما عليه من الدين، ويكون عنده من الناض سوى ذلك ما تجب فيه الزكاة، فإنه يزكي ما بيده من ناض تجب فيه الزكاة قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي الرَّجُلِ يَكُونُ عَلَيْهِ دَيْنٌ وَعِنْدَهُ مِنَ الْعُرُوضِ مَا فِيهِ وَفَاءٌ لِمَا عَلَيْهِ مِنَ الدَّيْنِ، وَيَكُونُ عِنْدَهُ مِنَ النَّاضِّ سِوَى ذَلِكَ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، فَإِنَّهُ يُزَكِّي مَا بِيَدِهِ مِنْ نَاضٍّ تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جس حکم میں ہمارے نزدیک اختلاف نہیں ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس اسباب اس قدر ہے جو اس کے ادائے دَین کو کافی ہے اور نقد روپیہ اس کے سوا ہے تو وہ نقد روپے کی زکوٰۃ دے۔
وإن لم يكن عنده من العروض والنقد إلا وفاء دينه، فلا زكاة عليه حتى يكون عنده من الناض فضل عن دينه ما تجب فيه الزكاة، فعليه ان يزكيهوَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ مِنَ الْعُرُوضِ وَالنَّقْدِ إِلَّا وَفَاءُ دَيْنِهِ، فَلَا زَكَاةَ عَلَيْهِ حَتَّى يَكُونَ عِنْدَهُ مِنَ النَّاضِّ فَضْلٌ عَنْ دَيْنِهِ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، فَعَلَيْهِ أَنْ يُزَكِّيَهُ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر نقد اور جنس ملا کر دونوں اس کے قرض کے برابر ہوں تو زکوٰۃ اس پر واجب نہ ہوگی جب تک کہ نقد اس کے دَین سے فاضل نہ ہو اور نصاب نہ ہو۔ جب تک ایسا ہو تو اس کے لیے زکوٰۃ دے۔