وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ،" انه اشترى لبني اخيه يتامى في حجره مالا فبيع ذلك المال بعد بمال كثير" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ،" أَنَّهُ اشْتَرَى لِبَنِي أَخِيهِ يَتَامَى فِي حِجْرِهِ مَالًا فَبِيعَ ذَلِكَ الْمَالُ بَعْدُ بِمَالٍ كَثِيرٍ"
یحیٰی بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی کے یتیم لڑکوں کے واسطے کچھ مال خریدا، پھر وہ مال بڑی قیمت کا بکا۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، شركة الحروف نمبر: 540، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 15»
قال مالك: لا باس بالتجارة في اموال اليتامى لهم إذا كان الولي مامونا فلا ارى عليه ضماناقَالَ مَالِك: لَا بَأْسَ بِالتِّجَارَةِ فِي أَمْوَالِ الْيَتَامَى لَهُمْ إِذَا كَانَ الْوَلِيُّ مَأْمُونًا فَلَا أَرَى عَلَيْهِ ضَمَانًا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: یتیم کے مال میں تجارت کرنا کچھ بُرا نہیں ہے جب ولی یتیم کا معتبر دیانت دار ہو اور اس پر تاوان لازم نہ ہوگا اگر نقصان ہو۔