وحدثني، عن مالك، عن ايوب بن ابي تميمة السختياني ، ان عمر بن عبد العزيز كتب في مال قبضه بعض الولاة ظلما " يامر برده إلى اهله ويؤخذ زكاته لما مضى من السنين ثم عقب بعد ذلك بكتاب ان لا يؤخذ منه إلا زكاة واحدة فإنه كان ضمارا" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ أَبِي تَمِيمَةَ السَّخْتِيَانِيِّ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَتَبَ فِي مَالٍ قَبَضَهُ بَعْضُ الْوُلَاةِ ظُلْمًا " يَأْمُرُ بِرَدِّهِ إِلَى أَهْلِهِ وَيُؤْخَذُ زَكَاتُهُ لِمَا مَضَى مِنَ السِّنِينَ ثُمَّ عَقَّبَ بَعْدَ ذَلِكَ بِكِتَابٍ أَنْ لَا يُؤْخَذَ مِنْهُ إِلَّا زَكَاةٌ وَاحِدَةٌ فَإِنَّهُ كَانَ ضِمَارًا"
حضرت ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے لکھا ایک مال کے باب میں جس کو بعض حکام نے ظلم سے چھین لیا تھا کہ: پھیر دیں اس کو اس کے مالک کو، اور اس میں سے زکوٰۃ اُن برسوں کی جو گزر گئے وصول کرلیں۔ اس کے بعد ایک نامہ لکھا کہ زکوٰۃ اُن برسوں کی نہ لی جائے کیونکہ وہ مال ضمار تھا۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7720، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7127، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10717، 10718 شیخ سلیم ہلالی نے کہا کہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے، شركة الحروف نمبر: 543، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 18»