وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن حميد بن قيس المكي انه اخبره، قال: كنت مع مجاهد وهو يطوف بالبيت فجاءه إنسان فساله عن صيام ايام الكفارة امتتابعات ام يقطعها؟ قال حميد: فقلت له: نعم، يقطعها إن شاء، قال مجاهد : " لا يقطعها فإنها في قراءة ابي بن كعب ثلاثة ايام متتابعات" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ قَيْسٍ الْمَكِّيِّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ مُجَاهِدٍ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ فَجَاءَهُ إِنْسَانٌ فَسَأَلَهُ عَنْ صِيَامِ أَيَّامِ الْكَفَّارَةِ أَمُتَتَابِعَاتٍ أَمْ يَقْطَعُهَا؟ قَالَ حُمَيْدٌ: فَقُلْتُ لَهُ: نَعَمْ، يَقْطَعُهَا إِنْ شَاءَ، قَالَ مُجَاهِدٌ : " لَا يَقْطَعُهَا فَإِنَّهَا فِي قِرَاءَةِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مُتَتَابِعَاتٍ"
حضرت حمید بن قیس مکی سے روایت ہے کہ ساتھ تھا میں مجاہد کے اور طواف کر رہے تھے خانہ کعبہ کا۔ اتنے میں ایک آدمی آیا اور پوچھا کہ قسم کے کفارے کے روزے پے درپے چاہییں یا جدا جدا؟ حمید نے کہا: ہاں جدا جدا بھی رکھ سکتا ہے اگر چاہے۔ مجاہد نے کہا: نہیں، کیونکہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراءت میں ہے: «ثَلٰثَةِ أَيَّامٍ مُتَتَابِعَاتٍ» یعنی روزے تین دن کے پے درپے۔
تخریج الحدیث: «موقوف حسن، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16102، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 803، 805، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20039، 20066، 20067، 20068، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 276/2، شركة الحروف نمبر: 629، فواد عبدالباقي نمبر: 18 - كِتَابُ الصِّيَامِ-ح: 49»
قال مالك: واحب إلي ان يكون ما سمى الله في القرآن يصام متتابعا قَالَ مَالِك: وَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَكُونَ مَا سَمَّى اللَّهُ فِي الْقُرْآنِ يُصَامُ مُتَتَابِعًا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جتنے روزوں کا ذکر اللہ جل جلالہُ نے اپنے کلام میں کیا ہے اُن سب کا پے در پے رکھنا بہتر ہے۔
وسئل مالك، عن المراة تصبح صائمة في رمضان، فتدفع دفعة من دم عبيط في غير اوان حيضها، ثم تنتظر حتى تمسي ان ترى مثل ذلك، فلا ترى شيئا ثم تصبح يوما آخر فتدفع دفعة اخرى، وهي دون الاولى ثم ينقطع ذلك عنها قبل حيضتها بايام، فسئل مالك: كيف تصنع في صيامها وصلاتها؟ قال مالك: ذلك الدم من الحيضة فإذا راته فلتفطر، ولتقض ما افطرت فإذا ذهب عنها الدم فلتغتسل، وتصوم وَسُئِلَ مَالِك، عَنِ الْمَرْأَةِ تُصْبِحُ صَائِمَةً فِي رَمَضَانَ، فَتَدْفَعُ دَفْعَةً مِنْ دَمٍ عَبِيطٍ فِي غَيْرِ أَوَانِ حَيْضِهَا، ثُمَّ تَنْتَظِرُ حَتَّى تُمْسِيَ أَنْ تَرَى مِثْلَ ذَلِكَ، فَلَا تَرَى شَيْئًا ثُمَّ تُصْبِحُ يَوْمًا آخَرَ فَتَدْفَعُ دَفْعَةً أُخْرَى، وَهِيَ دُونَ الْأُولَى ثُمَّ يَنْقَطِعُ ذَلِكَ عَنْهَا قَبْلَ حَيْضَتِهَا بِأَيَّامٍ، فَسُئِلَ مَالِك: كَيْفَ تَصْنَعُ فِي صِيَامِهَا وَصَلَاتِهَا؟ قَالَ مَالِك: ذَلِكَ الدَّمُ مِنَ الْحَيْضَةِ فَإِذَا رَأَتْهُ فَلْتُفْطِرْ، وَلْتَقْضِ مَا أَفْطَرَتْ فَإِذَا ذَهَبَ عَنْهَا الدَّمُ فَلْتَغْتَسِلْ، وَتَصُومُ
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال کیا اس عورت نے جو صبح کو روزہ دار ہو رمضان میں۔ پھر یکایک خون دیکھے اور وہ حیض کے دن نہ ہوں، پھر شام تک انتظار کرے مگر کچھ نہ دیکھے، پھر دوسرے دن جب صبح ہو تو یکایک خون دیکھے مگر پہلے روز سے کچھ کم، پھر وہ خون موقوف ہو جائے، اور یہ واقعہ حیض کے ایام سے پیشتر ہو، تو اس کے روزے اور نماز کا کیا حکم ہے؟ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ یہ خون حیض کا ہے تو جب اس کو دیکھے روزہ کھول ڈالے اور قضا کرے اس روزہ کی، پھر جب خون موقوف ہو جائے تو غسل کر کے روزہ رکھے۔
وسئل عمن اسلم في آخر يوم من رمضان، هل عليه قضاء رمضان كله او يجب عليه قضاء اليوم الذي اسلم فيه؟ فقال: ليس عليه قضاء ما مضى وإنما يستانف الصيام فيما يستقبل واحب إلي ان يقضي اليوم الذي اسلم فيهوَسُئِلَ عَمَّنْ أَسْلَمَ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ، هَلْ عَلَيْهِ قَضَاءُ رَمَضَانَ كُلِّهِ أَوْ يَجِبُ عَلَيْهِ قَضَاءُ الْيَوْمِ الَّذِي أَسْلَمَ فِيهِ؟ فَقَالَ: لَيْسَ عَلَيْهِ قَضَاءُ مَا مَضَى وَإِنَّمَا يَسْتَأْنِفُ الصِّيَامَ فِيمَا يُسْتَقْبَلُ وَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَقْضِيَ الْيَوْمَ الَّذِي أَسْلَمَ فِيهِ
امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: جو شخص مسلمان ہوا شام کو رمضان میں کچھ دن رہتے ہوئے، کہا اس پر پورے رمضان کی قضا لازم ہے یا اس دن کی جس دن مسلمان ہوا؟ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا: گذشتہ روزوں کی قضا اس پر لازم نہیں ہے، بلکہ آئندہ سے روزے رکھے اور اگر اس دن کی بھی قضا کرے جس دن وہ مسلمان ہوا تو بہتر ہے۔