وحدثني، عن مالك، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إياكم والوصال إياكم والوصال"، قالوا: فإنك تواصل يا رسول الله، قال: " إني لست كهيئتكم، إني ابيت يطعمني ربي ويسقيني" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِيَّاكُمْ وَالْوِصَالَ إِيَّاكُمْ وَالْوِصَالَ"، قَالُوا: فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " إِنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ، إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچو تم تہہ کے روزے رکھنے سے۔“ لوگوں نے کہا: آپ رکھتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں، مجھے رات کو میرا رب کھلا دیتا ہے اور پلا دیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1965، 1966، 6851، 7242، 7299، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1103، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2068، 2071، 2072، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3575، 3576، 6413، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 3251، 3252، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1745، 1748، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4240، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8462، 8463، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7283، 7349، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1039، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7753، 7754، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9679، شركة الحروف نمبر: 620، فواد عبدالباقي نمبر: 18 - كِتَابُ الصِّيَامِ-ح: 39»
قال مالك: احسن ما سمعت فيمن وجب عليه صيام شهرين متتابعين، في قتل خطا او تظاهر، فعرض له مرض يغلبه ويقطع عليه صيامه، انه إن صح من مرضه، وقوي على الصيام، فليس له ان يؤخر ذلك، وهو يبني على ما قد مضى من صيامه، وكذلك المراة التي يجب عليها الصيام في قتل النفس خطا. إذا حاضت بين ظهري صيامها انها، إذا طهرت، لا تؤخر الصيام. وهي تبني على ما قد صامت. وليس لاحد وجب عليه صيام شهرين متتابعين في كتاب اللٰه، ان يفطر إلا من علة: مرض او حيضة. وليس له ان يسافر فيفطر. قال مالك: وهذا احسن ما سمعت في ذلك.قَالَ مَالِكٍ: أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِيمَنْ وَجَبَ عَلَيْهِ صِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، فِي قَتْلِ خَطَأٍ أَوْ تَظَاهُرٍ، فَعَرَضَ لَهُ مَرَضٌ يَغْلِبُهُ وَيَقْطَعُ عَلَيْهِ صِيَامَهُ، أَنَّهُ إِنْ صَحَّ مِنْ مَرَضِهِ، وَقَوِيَ عَلَى الصِّيَامِ، فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُؤَخِّرَ ذَلِكَ، وَهُوَ يَبْنِي عَلَى مَا قَدْ مَضَى مِنْ صِيَامِهِ، وَكَذَلِكَ الْمَرْأَةُ الَّتِي يَجِبُ عَلَيْهَا الصِّيَامُ فِي قَتْلِ النَّفْسِ خَطَأً. إِذَا حَاضَتْ بَيْنَ ظَهْرَيْ صِيَامِهَا أَنَّهَا، إِذَا طَهُرَتْ، لَا تُؤَخِّرُ الصِّيَامَ. وَهِيَ تَبْنِي عَلَى مَا قَدْ صَامَتْ. وَلَيْسَ لِأَحَدٍ وَجَبَ عَلَيْهِ صِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ فِي كِتَابِ اللّٰهِ، أَنْ يُفْطِرَ إِلَّا مِنْ عِلَّةٍ: مَرَضٍ أَوْ حَيْضَةٍ. وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُسَافِرَ فَيُفْطِرَ. قَالَ مَالِكٍ: وَهَذَا أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِي ذَلِكَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جس شخص پر دو مہینے کے روزے پے در پے واجب ہوں قتلِ خطا یا ظہار میں، اور وہ روزے شروع کرے پھر بیچ میں کوئی مرض ایسا اس کو لاحق ہو جس کی وجہ سے روزوں کا سلسلہ ٹوٹ جائے، تو جب اس مرض سے اچھا ہو اور روزے پر قادر ہو فی الفور روزہ شروع کرے، اور جتنے روزے رکھ چکا ہے اُن پر بنا کرے، یعنی وہ روزے حساب میں رہیں گے۔ اور اسی طرح ایک عورت پر بسبب قتلِ خطا کے دو مہینے کے روزے لازم ہوئے اور اس نے روزے رکھنے شروع کیے لیکن بیچ میں حیض آ گیا، تو وہ حیض سے پاک ہوتے ہی روزے شروع کر دے، اور اگلے روزوں پر بنا کرے، یعنی وہ روزے حساب میں رہیں گے، اور جس شخص پر دو مہینے کے روزے لگاتار فرض ہوں تو اس کو بیچ میں افطار کرنا درست نہیں، مگر بیماری یا حیض کی وجہ سے، اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سفر کرے اور اس کی وجہ سے افطا کرے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ قول اچھا ہے جو سنا میں نے اس باب میں۔
قال مالك: الامر الذي سمعت من اهل العلم، ان المريض إذا اصابه المرض الذي يشق عليه الصيام معه، ويتعبه، ويبلغ ذلك منه، فإن له ان يفطر. وكذلك المريض الذي اشتد عليه القيام في الصلاة، وبلغ منه، وما اللٰه اعلم بعذر ذلك من العبد، ومن ذلك ما لا تبلغ صفته، فإذا بلغ ذلك، صلى وهو جالس. ودين اللٰه يسر. وقد ارخص اللٰه للمسافر، في الفطر في السفر. وهو اقوى على الصيام من المريض. قال اللٰه تعالى في كتابه ﴿فمن كان منكم مريضا او على سفر فعدة من ايام اخر﴾ [البقرة: 184] فارخص اللٰه للمسافر، في الفطر في السفر. وهو اقوى على الصوم من المريض. فهذا احب ما سمعت إلي وهو الامر المجتمع عليه.قَالَ مَالِكٍ: الْأَمْرُ الَّذِي سَمِعْتُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ الْمَرِيضَ إِذَا أَصَابَهُ الْمَرَضُ الَّذِي يَشُقُّ عَلَيْهِ الصِّيَامُ مَعَهُ، وَيُتْعِبُهُ، وَيَبْلُغُ ذَلِكَ مِنْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَنْ يُفْطِرَ. وَكَذَلِكَ الْمَرِيضُ الَّذِي اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْقِيَامُ فِي الصَّلَاةِ، وَبَلَغَ مِنْهُ، وَمَا اللّٰهُ أَعْلَمُ بِعُذْرِ ذَلِكَ مِنَ الْعَبْدِ، وَمِنْ ذَلِكَ مَا لَا تَبْلُغُ صِفَتُهُ، فَإِذَا بَلَغَ ذَلِكَ، صَلَّى وَهُوَ جَالِسٌ. وَدِينُ اللّٰهِ يُسْرٌ. وَقَدْ أَرْخَصَ اللّٰهُ لِلْمُسَافِرِ، فِي الْفِطْرِ فِي السَّفَرِ. وَهُوَ أَقْوَى عَلَى الصِّيَامِ مِنَ الْمَرِيضِ. قَالَ اللّٰهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ ﴿فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ﴾ [البقرة: 184] فَأَرْخَصَ اللّٰهُ لِلْمُسَافِرِ، فِي الْفِطْرِ فِي السَّفَرِ. وَهُوَ أَقْوَى عَلَى الصَّوْمِ مِنَ الْمَرِيضِ. فَهَذَا أَحَبُّ مَا سَمِعْتُ إِلَيَّ وَهُوَ الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے جو سنا اہلِ علم سے وہ یہ ہے کہ مریض کو جب ایسا مرض لاحق ہو جس کی وجہ سے روزہ رکھنا اس پر شاق ہو جائے، اور روزہ اس کو تکلیف پہنچائے اور وہ مرض اس درجہ پہنچ جائے، تو افطار کرنا درست ہے، اسی طرح جب مریض کو کھڑا ہونا دشوار ہو نماز میں اور یہ مرض اس درجہ کو پہنچ جائے کہ عذر گنا جائے اللہ جل جلالہُ کے نزدیک، اور اللہ تعالیٰ اس کو زیادہ جانتا ہے بندے سے، اور اسی مرض میں سے بعض ایسا ہے جو اس درجہ کا نہیں ہے، بہرحال جب مرض اس درجے کو پہنچے تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھے، کیونکہ دین اللہ تعالیٰ کا آسان ہے، اور اللہ جل جلالہُ نے مسافر کو رخصت دی روزہ نہ رکھنے کی حالانکہ وہ زیادہ قادر ہے روزہ پر مریض سے۔ فرمایا اللہ جل جلالہُ نے اپنی کتابِ مقدس میں: ”جو شخص تم میں سے مریض ہو یا مسافر ہو تو وہ اتنے روز شمار کر کے دوسرے دنوں میں روزہ رکھ لے۔“ پس رخصت دی اللہ جل جلالہُ نے مسافر کو افطار کی، حالانکہ وہ زیادہ قادر ہے روزے پر مریض سے۔ اور یہ بہت پسند ہے مجھ کو اُن اقوال میں جن کو سنا میں نے اس باب میں، اور ہمارے نزدیک یہ امر اتفاقی اور مجمع علیہ ہے۔