وحدثني، عن مالك , عن هشام بن عروة , عن ابيه ،" انه كان يحتجم وهو صائم ثم لا يفطر، قال: وما رايته احتجم قط إلا وهو صائم" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ ،" أَنَّهُ كَانَ يَحْتَجِمُ وَهُوَ صَائِمٌ ثُمَّ لَا يُفْطِرُ، قَالَ: وَمَا رَأَيْتُهُ احْتَجَمَ قَطُّ إِلَّا وَهُوَ صَائِمٌ"
حضرت عروہ بن زبیر پچھنے لگاتے تھے روزے میں، پھر افطار نہیں کرتے تھے۔ کہا ہشام نے: میں نے کبھی نہیں دیکھا حضرت عروہ کو پچھنے لگاتے ہوئے مگر وہ روزے سے ہوتے تھے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، أخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7546، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9426، والشافعي فى «الاُم» برقم: 97/2، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2546، شركة الحروف نمبر: 615، فواد عبدالباقي نمبر: 18 - كِتَابُ الصِّيَامِ-ح: 32»
قال مالك: لا تكره الحجامة للصائم إلا خشية من ان يضعف، ولولا ذلك لم تكره ولو ان رجلا احتجم في رمضان ثم سلم من ان يفطر لم ار عليه شيئا، ولم آمره بالقضاء لذلك اليوم الذي احتجم فيه، لان الحجامة إنما تكره للصائم لموضع التغرير بالصيام، فمن احتجم وسلم من ان يفطر حتى يمسي فلا ارى عليه شيئا وليس عليه قضاء ذلك اليومقَالَ مَالِك: لَا تُكْرَهُ الْحِجَامَةُ لِلصَّائِمِ إِلَّا خَشْيَةً مِنْ أَنْ يَضْعُفَ، وَلَوْلَا ذَلِكَ لَمْ تُكْرَهْ وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا احْتَجَمَ فِي رَمَضَانَ ثُمَّ سَلِمَ مِنْ أَنْ يُفْطِرَ لَمْ أَرَ عَلَيْهِ شَيْئًا، وَلَمْ آمُرْهُ بِالْقَضَاءِ لِذَلِكَ الْيَوْمِ الَّذِي احْتَجَمَ فِيهِ، لِأَنَّ الْحِجَامَةَ إِنَّمَا تُكْرَهُ لِلصَّائِمِ لِمَوْضِعِ التَّغْرِيرِ بِالصِّيَامِ، فَمَنِ احْتَجَمَ وَسَلِمَ مِنْ أَنْ يُفْطِرَ حَتَّى يُمْسِيَ فَلَا أَرَى عَلَيْهِ شَيْئًا وَلَيْسَ عَلَيْهِ قَضَاءُ ذَلِكَ الْيَوْمِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: پچھنے لگانا روزہ دار کو مکروہ نہیں ہے مگر اس خوف سے کہ ضعیف ہو جائے، اور اگر ضعف کا خوف نہ ہو تو مکروہ نہیں ہے۔ پس اگر ایک شخص نے پچھنے لگائے رمضان میں، پھر روزہ توڑنے سے بچ گیا تو اس پر کچھ لازم نہیں ہے، نہ اس کو اس دن کی قضا کا حکم ہے، کیونکہ پچھنے لگانا مکروہ ہے جب روزہ ٹوٹ جانے کا خوف ہو۔ پس اگر پچھنے لگائے اور روزہ توڑنے سے بچا یہاں تک کہ شام ہو گئی تو اس پر کچھ لازم نہیں، نہ اس پر قضا ہے اس دن کی۔