وحدثني، عن مالك، انه بلغه، ان عبد الرحمن بن ابي بكر قد دخل على عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم يوم مات سعد بن ابي وقاص فدعا بوضوء، فقالت له عائشة: يا عبد الرحمن اسبغ الوضوء، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ويل للاعقاب من النار"وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ قَدْ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ فَدَعَا بِوَضُوءٍ، فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ أَسْبِغِ الْوُضُوءَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ"
امام مالک رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو پہنچا کہ سیّدنا عبدالرحمٰن بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما گئے اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جس دن مرے سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، تو منگایا سیّدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے پانی وضو کا، پس کہا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے: پورا کرو وضو کو کیونکہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”خرابی ہے ایڑیوں کو آگ سے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، و أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 240، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 451، 452، وأحمد فى «مسنده» برقم:81، 84، 99، شركة الحروف نمبر: 31/2، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 5»
موطا امام مالك رواية يحييٰ کی حدیث نمبر 34 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 34
فائدہ:
.......... یعنی اگر ایڑیاں خشک رہ جائیں تو اُن کو جہنم کی آگ میں جلایا جائے گا، اندازہ کیجیے کہ یہ اُن لوگوں کی سزا ہے جو نماز کے لیے وضو کرتے ہیں لیکن وضو میں کمی کر بیٹھتے ہیں، تو جو لوگ سرے سے ہی نماز اور وضو کے قریب بھی نہیں جاتے اُن کا کیا حال ہو گا، بہر حال تمام اعضائے وضو کا حکم بھی ایڑیوں جیسا ہی ہے، ان کا خاص تذکرہ صرف اس لیے کیا گیا کہ ان کے دھونے میں زیادہ کوتاہی برتی جاتی ہے۔ نیز یہ حدیث اس بارے میں نص ہے کہ وضو کرتے وقت اگر باوضو حالت میں پہنے ہوئے موزے یا جرابیں پاؤں پر پہنی ہوئی نہ ہوں تو مکمل پاؤں کو دھونا لازم ہے، ننگے پاؤں کا مسح قطعاً جائز نہیں اور شیعہ کا ننگے پاؤں پر مسح کرنا باعث جہنم ہے۔
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 34