وحدثني، عن مالك، عن ابي حازم بن دينار ، عن سهل بن سعد الساعدي ، انه قال: " ساعتان يفتح لهما ابواب السماء وقل داع ترد عليه دعوته حضرة النداء للصلاة والصف في سبيل الله" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: " سَاعَتَانِ يُفْتَحُ لَهُمَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَقَلَّ دَاعٍ تُرَدُّ عَلَيْهِ دَعْوَتُهُ حَضْرَةُ النِّدَاءِ لِلصَّلَاةِ وَالصَّفُّ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا انہوں نے: دو وقت کھل جاتے ہیں دروازے آسمان کے، اور کم ہوتا ہے ایسا دعا کرنے والا کہ نہ قبول ہو دعا اُس کی، جس وقت اذان ہو نماز کی، دوسری جس وقت صفت باندھی جائے جہاد کے لیے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 2540، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 419، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1720، 1764، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 724، 2549، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1236، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1969، 1970، 6552، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 1910، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 29852، والطبراني فى "الكبير"، 5756، 5774، 5847، شركة الحروف نمبر: 140، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 7»
وسئل مالك، عن النداء يوم الجمعة هل يكون قبل ان يحل الوقت؟ فقال: لا يكون إلا بعد ان تزول الشمس وَسُئِلَ مَالِك، عَنِ النِّدَاءِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ هَلْ يَكُونُ قَبْلَ أَنْ يَحِلَّ الْوَقْتُ؟ فَقَالَ: لَا يَكُونُ إِلَّا بَعْدَ أَنْ تَزُولَ الشَّمْسُ
سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے: کیا جائز ہے جمعہ کی اذان قبل از وقت کے؟ بولے: نہیں! جب تک کہ آفتاب ڈھل نہ جائے۔
وسئل مالك، عن تثنية الاذان والإقامة ومتى يجب القيام على الناس حين تقام الصلاة؟ فقال: لم يبلغني في النداء والإقامة إلا ما ادركت الناس عليه، فاما الإقامة فإنها لا تثنى وذلك الذي لم يزل عليه اهل العلم ببلدنا، واما قيام الناس حين تقام الصلاة، فإني لم اسمع في ذلك بحد يقام له، إلا اني ارى ذلك على قدر طاقة الناس، فإن منهم الثقيل والخفيف ولا يستطيعون ان يكونوا كرجل واحد. وَسُئِلَ مَالِك، عَنْ تَثْنِيَةِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ وَمَتَى يَجِبُ الْقِيَامُ عَلَى النَّاسِ حِينَ تُقَامُ الصَّلَاةُ؟ فَقَالَ: لَمْ يَبْلُغْنِي فِي النِّدَاءِ وَالْإِقَامَةِ إِلَّا مَا أَدْرَكْتُ النَّاسَ عَلَيْهِ، فَأَمَّا الْإِقَامَةُ فَإِنَّهَا لَا تُثَنَّى وَذَلِكَ الَّذِي لَمْ يَزَلْ عَلَيْهِ أَهْلُ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا، وَأَمَّا قِيَامُ النَّاسِ حِينَ تُقَامُ الصَّلَاةُ، فَإِنِّي لَمْ أَسْمَعْ فِي ذَلِكَ بِحَدٍّ يُقَامُ لَهُ، إِلَّا أَنِّي أَرَى ذَلِكَ عَلَى قَدْرِ طَاقَةِ النَّاسِ، فَإِنَّ مِنْهُمُ الثَّقِيلَ وَالْخَفِيفَ وَلَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَكُونُوا كَرَجُلٍ وَاحِدٍ.
سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے دو مسئلوں کے بارے میں، پہلا یہ کہ اذان اور اقامت دو بار کہی جائے، یعنی کلمات اذان اور اقامت کے، مثلاً «اللّٰهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰه، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلَ اللّٰه، حَيَّ عَلَى الصَّلَوٰة، حَيَّ عَلَى الْفَلَاح» یہ سب دو بار کہے جائیں یا ایک ایک بار۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ لوگ کب کھڑے ہوں نماز کے لیے جب تکبیر کہی جائے؟ تو امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ اذان اور اقامت میں مجھے کوئی حدیث نہیں پہنچی مگر میں نے اپنے شہر کے لوگوں کو جس طرح پایا وہی جانتا ہوں۔
وسئل مالك، عن قوم حضور ارادوا ان يجمعوا المكتوبة فارادوا ان يقيموا ولا يؤذنوا، قال مالك: ذلك مجزئ عنهم، وإنما يجب النداء في مساجد الجماعات التي تجمع فيها الصلاة. وَسُئِلَ مَالِك، عَنْ قَوْمٍ حُضُورٍ أَرَادُوا أَنْ يَجْمَعُوا الْمَكْتُوبَةَ فَأَرَادُوا أَنْ يُقِيمُوا وَلَا يُؤَذِّنُوا، قَالَ مَالِك: ذَلِكَ مُجْزِئٌ عَنْهُمْ، وَإِنَّمَا يَجِبُ النِّدَاءُ فِي مَسَاجِدِ الْجَمَاعَاتِ الَّتِي تُجْمَعُ فِيهَا الصَّلَاةُ.
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ اگر چند مقیم لوگ ارادہ کریں کہ جماعت سے ادا کریں فرض نماز کو تو صرف تکبیر کہہ لینا کافی ہے یا اذان بھی دینا ضروری ہے؟ تو جواب دیا امام مالک رحمہ اللہ نے کہ تکبیر کہہ لینا کافی ہے۔ اور اذان واجب ہے اُن مسجدوں میں جہاں جماعت سے نماز ہوتی ہے۔
وسئل مالك، عن تسليم المؤذن على الإمام ودعائه إياه للصلاة ومن اول من سلم عليه؟ فقال: لم يبلغني ان التسليم كان في الزمان الاول وَسُئِلَ مَالِك، عَنْ تَسْلِيمِ الْمُؤَذِّنِ عَلَى الْإِمَامِ وَدُعَائِهِ إِيَّاهُ لِلصَّلَاةِ وَمَنْ أَوَّلُ مَنْ سُلِّمَ عَلَيْهِ؟ فَقَالَ: لَمْ يَبْلُغْنِي أَنَّ التَّسْلِيمَ كَانَ فِي الزَّمَانِ الْأَوَّلِ
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ بعد اذان کے مؤذن سلام کرے امیر کو اور بلائے اس کو نماز کے لیے اور کون وہ شخص ہے جس پر اوّل سلام کیا مؤذن نے؟ تو جواب دیا امام مالک رحمہ اللہ نے: مجھے یہ خبر نہیں پہنچی کہ اوّل زمانہ میں مؤذن سلام کرتا ہو امیر کو۔
قال يحيى: وسئل مالك، عن مؤذن اذن لقوم ثم انتظر، هل ياتيه احد فلم ياته احد فاقام الصلاة، وصلى وحده ثم جاء الناس بعد ان فرغ، ايعيد الصلاة معهم؟ قال: لا يعيد الصلاة، ومن جاء بعد انصرافه فليصل لنفسه وحدهقَالَ يَحْيَى: وَسُئِلَ مَالِك، عَنْ مُؤَذِّنٍ أَذَّنَ لِقَوْمٍ ثُمَّ انْتَظَرَ، هَلْ يَأْتِيهِ أَحَدٌ فَلَمْ يَأْتِهِ أَحَدٌ فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، وَصَلَّى وَحْدَهُ ثُمَّ جَاءَ النَّاسُ بَعْدَ أَنْ فَرَغَ، أَيُعِيدُ الصَّلَاةَ مَعَهُمْ؟ قَالَ: لَا يُعِيدُ الصَّلَاةَ، وَمَنْ جَاءَ بَعْدَ انْصِرَافِهِ فَلْيُصَلِّ لِنَفْسِهِ وَحْدَهُ
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ایک مؤذن نے انتظار کیا لوگوں کا لیکن کوئی نہ آیا، آخر اس نے اکیلے تکبیر کہہ کر نماز پڑھ لی، جب وہ نماز پڑھ چکا تو لوگ آئے، اب مؤذن پھر اُن لوگوں کے ساتھ نماز پڑھے یا نہ پڑھے؟ تو جواب دیا امام مالک رحمہ اللہ نے کہ مؤذن پھر نہ پڑھے، اور جو لوگ آئے ہیں وہ اکیلے اکیلے نماز پڑھیں۔
قال يحيى: وسئل مالك، عن مؤذن اذن لقوم ثم تنفل، فارادوا ان يصلوا بإقامة غيره؟ فقال: لا باس بذلك إقامته وإقامة غيره سواء قَالَ يَحْيَى: وَسُئِلَ مَالِك، عَنْ مُؤَذِّنٍ أَذَّنَ لِقَوْمٍ ثُمَّ تَنَفَّلَ، فَأَرَادُوا أَنْ يُصَلُّوا بِإِقَامَةِ غَيْرِهِ؟ فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِذَلِكَ إِقَامَتُهُ وَإِقَامَةُ غَيْرِهِ سَوَاءٌ
امام مالک رحمہ سے پوچھا گیا کہ ایک مؤذن نے اذان دی، پھر نفل پڑھنے لگا، اب لوگوں نے یہ ارادہ کیا کہ جماعت کھڑی کریں دوسرے شخص کی تکبیر سے؟ تو جواب دیا امام مالک رحمہ اللہ نے کہ اس میں کچھ قباحت نہیں ہے، خواہ مؤذن تکبیر کہے یا اور کوئی شخص کہے دونوں برابر ہیں۔
قال يحيى: قال مالك: لم تزل الصبح ينادى لها قبل الفجر فاما غيرها من الصلوات فإنا لم نرها ينادى لها إلا بعد ان يحل وقتهاقَالَ يَحْيَى: قَالَ مَالِك: لَمْ تَزَلِ الصُّبْحُ يُنَادَى لَهَا قَبْلَ الْفَجْرِ فَأَمَّا غَيْرُهَا مِنَ الصَّلَوَاتِ فَإِنَّا لَمْ نَرَهَا يُنَادَى لَهَا إِلَّا بَعْدَ أَنْ يَحِلَّ وَقْتُهَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ صبح کی اذان تو قدیم سے قبل وقت کے ہوتی چلی آئی ہے، لیکن اور نمازوں کی اذان بعد وقت کے چاہیے۔