وحدثني مالك، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تلقوا الركبان للبيع، ولا يبع بعضكم على بيع بعض، ولا تناجشوا، ولا يبع حاضر لباد، ولا تصروا الإبل والغنم، فمن ابتاعها بعد ذلك فهو بخير النظرين بعد ان يحلبها إن رضيها امسكها وإن سخطها ردها وصاعا من تمر" . وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَلَقَّوْا الرُّكْبَانَ لِلْبَيْعِ، وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَلَا تَنَاجَشُوا، وَلَا يَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَلَا تُصَرُّوا الْإِبِلَ وَالْغَنَمَ، فَمَنِ ابْتَاعَهَا بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ بَعْدَ أَنْ يَحْلُبَهَا إِنْ رَضِيَهَا أَمْسَكَهَا وَإِنْ سَخِطَهَا رَدَّهَا وَصَاعًا مِنْ تَمْرٍ" .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مت ملو بنجاروں سے آگے بڑھ کر ان کا مال خریدنے کے واسطے، اور نہ بیچے ایک تم میں کا دوسرے کی بیع پر، اور نہ نجش کرو، اور نہ بیچے بستی والا دیہات والے کی طرف سے، اور نہ جمع کرے دودھ اونٹ اور بکری کے تھنوں میں، اگر کوئی ایسی اونٹنی یا بکری خریدے، پھر دودھ دوہنے کے بعد اس کا حال معلوم ہو، تو مشتری کو اختیار ہے اگر چاہے رکھ لے یا چاہے تو پھیر دے، اور دوھ کے بدلے میں ایک صاع کھجور دے دے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2140، 2148، 2150، 2151، 2160، 2162، 2723، 2727، 5109، 5110، 5152، 6066، 6601، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1408، 1515، والنسائي فى «المجتبيٰ» برقم: 4501، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3443، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2239، وأحمد فى «مسنده» برقم: 10005، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1125 م، 1126، 1134، 1190، 1221، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1056، 1057، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 96»
. قال مالك: وتفسير قول رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما نرى والله اعلم: لا يبع بعضكم على بيع بعض: انه إنما نهى ان يسوم الرجل على سوم اخيه، إذا ركن البائع إلى السائم وجعل يشترط وزن الذهب ويتبرا من العيوب وما اشبه ذلك مما يعرف به ان البائع قد اراد مبايعة السائم، فهذا الذي نهى عنه والله اعلم. . قَالَ مَالِك: وَتَفْسِيرُ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا نُرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ: لَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ: أَنَّهُ إِنَّمَا نَهَى أَنْ يَسُومَ الرَّجُلُ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ، إِذَا رَكَنَ الْبَائِعُ إِلَى السَّائِمِ وَجَعَلَ يَشْتَرِطُ وَزْنَ الذَّهَبِ وَيَتَبَرَّأُ مِنَ الْعُيُوبِ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِمَّا يُعْرَفُ بِهِ أَنَّ الْبَائِعَ قَدْ أَرَادَ مُبَايَعَةَ السَّائِمِ، فَهَذَا الَّذِي نَهَى عَنْهُ وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ بیچے تم میں کا دوسرے کی بیع پر“، اس سے یہ مراد ہے کہ ایک شخص دوسرے کے مول پر مول نہ کرے، جب بائع پہلے مول پر راضی ہوچکا ہو، اور اپنی چیز تولنے لگا ہو، اور عیب سے اپنے تئیں بَری کرنے لگا ہو، یا اور کوئی کام ایسا کرے جس سے معلوم ہو کہ بائع پہلے مول پر راضی ہوچکا ہے، اور جو بائع پہلے مول پر راضی نہ ہو بلکہ وہ مال اسی طرح بیچنے کے واسطے رکھا ہو تو ہر ایک کو اس کا مول کرنا درست ہے، اور اگر ایک شخص کے مول کرتے ہی اور لوگوں کو مول کرنا منع ہوجائے تو اس میں بیچنے والے کا نقصان ہے۔
. قال مالك: ولا باس بالسوم بالسلعة توقف للبيع فيسوم بها غير واحد، قال: ولو ترك الناس السوم عند اول من يسوم بها، اخذت بشبه الباطل من الثمن، ودخل على الباعة في سلعهم المكروه، ولم يزل الامر عندنا على هذا. قَالَ مَالِك: وَلَا بَأْسَ بِالسَّوْمِ بِالسِّلْعَةِ تُوقَفُ لِلْبَيْعِ فَيَسُومُ بِهَا غَيْرُ وَاحِدٍ، قَالَ: وَلَوْ تَرَكَ النَّاسُ السَّوْمَ عِنْدَ أَوَّلِ مَنْ يَسُومُ بِهَا، أُخِذَتْ بِشِبْهِ الْبَاطِلِ مِنَ الثَّمَنِ، وَدَخَلَ عَلَى الْبَاعَةِ فِي سِلَعِهِمُ الْمَكْرُوهُ، وَلَمْ يَزَلِ الْأَمْرُ عِنْدَنَا عَلَى هَذَا