حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن القاسم بن محمد ، انه قال: سمعت عبد الله بن عباس ورجل يساله عن رجل سلف في سبائب فاراد بيعها قبل ان يقبضها، فقال ابن عباس : " تلك الورق بالورق"، كره ذلك . حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ وَرَجُلٌ يَسْأَلُهُ عَنْ رَجُلٍ سَلَّفَ فِي سَبَائِبَ فَأَرَادَ بَيْعَهَا قَبْلَ أَنْ يَقْبِضَهَا، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : " تِلْكَ الْوَرِقُ بِالْوَرِقِ"، كَرِهَ ذَلِكَ .
حضرت قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا: جو کوئی کپڑوں میں سلف کرے پھر قبل قبضے کے ان کو بیچنا چاہے؟ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ چاندی کی بیع ہے چاندی کے بدلے میں، اور اس کو مکروہ جانا۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3491، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14234، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 21828، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 70»
. قال مالك: وذلك فيما نرى والله اعلم، انه اراد ان يبيعها من صاحبها الذي اشتراها منه باكثر من الثمن الذي ابتاعها به، ولو انه باعها من غير الذي اشتراها منه لم يكن بذلك باس. . قَالَ مَالِك: وَذَلِكَ فِيمَا نُرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ، أَنَّهُ أَرَادَ أَنْ يَبِيعَهَا مِنْ صَاحِبِهَا الَّذِي اشْتَرَاهَا مِنْهُ بِأَكْثَرَ مِنَ الثَّمَنِ الَّذِي ابْتَاعَهَا بِهِ، وَلَوْ أَنَّهُ بَاعَهَا مِنْ غَيْرِ الَّذِي اشْتَرَاهَا مِنْهُ لَمْ يَكُنْ بِذَلِكَ بَأْسٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہماری دانست میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص ان کپڑوں کو اسی کے ہاتھ بیچنا چاہے جس سے خریدا ہے پہلی قیمت سے کچھ زیادہ پر، کیونکہ اگر وہ کسی اور شخص سے ان کپڑوں کو بیچنا چاہے تو کچھ قباحت نہیں۔
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا فيمن سلف في رقيق او ماشية او عروض، فإذا كان كل شيء من ذلك موصوفا فسلف فيه إلى اجل فحل الاجل، فإن المشتري لا يبيع شيئا من ذلك من الذي اشتراه منه باكثر من الثمن الذي سلفه فيه قبل ان يقبض ما سلفه فيه، وذلك انه إذا فعله فهو الربا، صار المشتري إن اعطى الذي باعه دنانير او دراهم فانتفع بها، فلما حلت عليه السلعة ولم يقبضها المشتري باعها من صاحبها باكثر مما سلفه فيها، فصار ان رد إليه ما سلفه وزاده من عنده. قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِيمَنْ سَلَّفَ فِي رَقِيقٍ أَوْ مَاشِيَةٍ أَوْ عُرُوضٍ، فَإِذَا كَانَ كُلُّ شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ مَوْصُوفًا فَسَلَّفَ فِيهِ إِلَى أَجَلٍ فَحَلَّ الْأَجَلُ، فَإِنَّ الْمُشْتَرِيَ لَا يَبِيعُ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ مِنَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِنْهُ بِأَكْثَرَ مِنَ الثَّمَنِ الَّذِي سَلَّفَهُ فِيهِ قَبْلَ أَنْ يَقْبِضَ مَا سَلَّفَهُ فِيهِ، وَذَلِكَ أَنَّهُ إِذَا فَعَلَهُ فَهُوَ الرِّبَا، صَارَ الْمُشْتَرِي إِنْ أَعْطَى الَّذِي بَاعَهُ دَنَانِيرَ أَوْ دَرَاهِمَ فَانْتَفَعَ بِهَا، فَلَمَّا حَلَّتْ عَلَيْهِ السِّلْعَةُ وَلَمْ يَقْبِضْهَا الْمُشْتَرِي بَاعَهَا مِنْ صَاحِبِهَا بِأَكْثَرَ مِمَّا سَلَّفَهُ فِيهَا، فَصَارَ أَنْ رَدَّ إِلَيْهِ مَا سَلَّفَهُ وَزَادَهُ مِنْ عِنْدِهِ.
مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے: جو شخص سلف کرے غلام میں یا جانور میں یا کسی اور اسباب میں، اور اس کے اوصاف بیان کردے ایک میعاد معین پر، جب میعاد گزرے تو مشتری ان چیزوں کو اسی بائع کے ہاتھ پہلی قیمت سے زیادہ پر نہ بیچے، جب تک کہ ان چیزوں کو اپنے قبضے میں نہ لائے، ورنہ ربا ہوجائے گا، گویا بائع نے ایک مدت تک مشتری کے روپوں سے فائدہ اٹھایا، پھر زیادہ دے کر اس کو پھیر دیا تو یہ عین ربا ہے۔
. قال مالك: من سلف ذهبا او ورقا في حيوان او عروض إذا كان موصوفا إلى اجل مسمى ثم حل الاجل، فإنه لا باس ان يبيع المشتري تلك السلعة من البائع، قبل ان يحل الاجل او بعد ما يحل بعرض من العروض يعجله ولا يؤخره بالغا ما بلغ ذلك العرض إلا الطعام، فإنه لا يحل ان يبيعه حتى يقبضه، وللمشتري ان يبيع تلك السلعة من غير صاحبه الذي ابتاعها منه بذهب او ورق او عرض من العروض يقبض ذلك ولا يؤخره، لانه إذا اخر ذلك قبح ودخله ما يكره من الكالئ بالكالئ، والكالئ بالكالئ: ان يبيع الرجل دينا له على رجل بدين على رجل آخر. . قَالَ مَالِك: مَنْ سَلَّفَ ذَهَبًا أَوْ وَرِقًا فِي حَيَوَانٍ أَوْ عُرُوضٍ إِذَا كَانَ مَوْصُوفًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ حَلَّ الْأَجَلُ، فَإِنَّهُ لَا بَأْسَ أَنْ يَبِيعَ الْمُشْتَرِي تِلْكَ السِّلْعَةَ مِنَ الْبَائِعِ، قَبْلَ أَنْ يَحِلَّ الْأَجَلُ أَوْ بَعْدَ مَا يَحِلُّ بِعَرْضٍ مِنَ الْعُرُوضِ يُعَجِّلُهُ وَلَا يُؤَخِّرُهُ بَالِغًا مَا بَلَغَ ذَلِكَ الْعَرْضُ إِلَّا الطَّعَامَ، فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ أَنْ يَبِيعَهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ، وَلِلْمُشْتَرِي أَنْ يَبِيعَ تِلْكَ السِّلْعَةَ مِنْ غَيْرِ صَاحِبِهِ الَّذِي ابْتَاعَهَا مِنْهُ بِذَهَبٍ أَوْ وَرِقٍ أَوْ عَرْضٍ مِنَ الْعُرُوضِ يَقْبِضُ ذَلِكَ وَلَا يُؤَخِّرُهُ، لِأَنَّهُ إِذَا أَخَّرَ ذَلِكَ قَبُحَ وَدَخَلَهُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الْكَالِئِ بِالْكَالِئِ، وَالْكَالِئُ بِالْكَالِئِ: أَنْ يَبِيعَ الرَّجُلُ دَيْنًا لَهُ عَلَى رَجُلٍ بِدَيْنٍ عَلَى رَجُلٍ آخَرَ.
مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص سلف کرے سونا چاندی دے کر کسی اسباب میں، یا جانور میں اور اس سے اوصاف بیان کردے ایک میعاد معین پر، جب میعاد گزر جائے یا نہ گزرے، تو مشتری اس اسباب یا جانور کو بائع کے ہاتھ کسی اور اسباب کے بدلے میں بیچ سکتا ہے، مگر یہ ضروری ہے کہ اس اسباب کو نقد لے لے، اس میں میعاد نہ ہو، سوائے غلے کے کہ اس کا بیچنا قبل قبضے کے درست نہیں، اور اگر مشتری اس اسباب کو سوائے بائع کے اور کسی کے ہاتھ بیچے تو سونے چاندی کے بدلے میں بھی بیچ سکتا ہے، مگر یہ ضروری ہے کہ دام نقد لے، میعاد نہ ہو، ورنہ کالنی کی بیع کالنی کے بدلے میں ہوجائے گی، یعنی دین کے بدلے میں دین۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جو شخص کسی اسباب میں جو کھانے پینے کا نہیں ہے سلف کرے ایک میعاد پر، تو مشتری کو اختیار ہے کہ اس اسباب کو سوائے بائع کے اور کسی کے ہاتھ سونا یا چاندی یا اسباب کے بدلے میں فروخت کر ڈالے قبضے سے پیشتر، مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ بائع کے ہاتھ ہی بیچے، اگر ایسا کرے تو اسباب کے بدلے میں بیچ ڈالے تو کچھ قباحت نہیں، مگر نقداً نقد بیچے۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جس نے روپے یا اشرفیاں دے کر سلف کی چار کپڑوں میں ایک میعاد پر، اور ان کپڑوں کے اوصاف بیان کردیئے، جب مدت گزری تو مشتری نے بائع پر ان چیزوں کا تقاضا کیا، لیکن بائع کے پاس اس قسم کے کپڑے نہ نکلے بلکہ اس سے ہلکے، اس وقت بائع نے کہا: تو ان ہلکے کپڑوں میں سے آٹھ کپڑے لے لے، تو مشتری کو لینا درست ہے، مگر اسی وقت نقد لینا چاہیے، دیر نہ کرے، اگر ان آٹھ کپڑوں کی کوئی معیاد نہ کرے گا تو درست نہیں ہے، اگر قبل معیاد گزرنے کے دوسرے کپڑے اسی قسم کے ٹھہرائے تو درست نہیں، البتہ دوسرے قسم کے کپڑوں سے بدلنا درست ہے۔
قال مالك: ومن سلف في سلعة إلى اجل، وتلك السلعة مما لا يؤكل ولا يشرب، فإن المشتري يبيعها ممن شاء بنقد او عرض قبل ان يستوفيها من غير صاحبها الذي اشتراها منه، ولا ينبغي له ان يبيعها من الذي ابتاعها منه إلا بعرض يقبضه ولا يؤخره. قَالَ مَالِك: وَمَنْ سَلَّفَ فِي سِلْعَةٍ إِلَى أَجَلٍ، وَتِلْكَ السِّلْعَةُ مِمَّا لَا يُؤْكَلُ وَلَا يُشْرَبُ، فَإِنَّ الْمُشْتَرِيَ يَبِيعُهَا مِمَّنْ شَاءَ بِنَقْدٍ أَوْ عَرْضٍ قَبْلَ أَنْ يَسْتَوْفِيَهَا مِنْ غَيْرِ صَاحِبِهَا الَّذِي اشْتَرَاهَا مِنْهُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَبِيعَهَا مِنَ الَّذِي ابْتَاعَهَا مِنْهُ إِلَّا بِعَرْضٍ يَقْبِضُهُ وَلَا يُؤَخِّرُهُ.
. قال مالك: وإن كانت السلعة لم تحل، فلا باس بان يبيعها من صاحبها بعرض مخالف لها بين خلافه يقبضه ولا يؤخره. قال مالك فيمن سلف دنانير او دراهم في اربعة اثواب موصوفة إلى اجل، فلما حل الاجل تقاضى صاحبها فلم يجدها عنده، ووجد عنده ثيابا دونها من صنفها، فقال له الذي عليه الاثواب: اعطيك بها ثمانية اثواب من ثيابي هذه: إنه لا باس بذلك إذا اخذ تلك الاثواب التي يعطيه قبل ان يفترقا، فإن دخل ذلك الاجل، فإنه لا يصلح، وإن كان ذلك قبل محل الاجل، فإنه لا يصلح ايضا إلا ان يبيعه ثيابا ليست من صنف الثياب التي سلفه فيها. قَالَ مَالِك: وَإِنْ كَانَتِ السِّلْعَةُ لَمْ تَحِلَّ، فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَبِيعَهَا مِنْ صَاحِبِهَا بِعَرْضٍ مُخَالِفٍ لَهَا بَيِّنٍ خِلَافُهُ يَقْبِضُهُ وَلَا يُؤَخِّرُهُ. قَالَ مَالِك فِيمَنْ سَلَّفَ دَنَانِيرَ أَوْ دَرَاهِمَ فِي أَرْبَعَةِ أَثْوَابٍ مَوْصُوفَةٍ إِلَى أَجَلٍ، فَلَمَّا حَلَّ الْأَجَلُ تَقَاضَى صَاحِبَهَا فَلَمْ يَجِدْهَا عِنْدَهُ، وَوَجَدَ عِنْدَهُ ثِيَابًا دُونَهَا مِنْ صِنْفِهَا، فَقَالَ لَهُ الَّذِي عَلَيْهِ الْأَثْوَابُ: أُعْطِيكَ بِهَا ثَمَانِيَةَ أَثْوَابٍ مِنْ ثِيَابِي هَذِهِ: إِنَّهُ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ إِذَا أَخَذَ تِلْكَ الْأَثْوَابَ الَّتِي يُعْطِيهِ قَبْلَ أَنْ يَفْتَرِقَا، فَإِنْ دَخَلَ ذَلِكَ الْأَجَلُ، فَإِنَّهُ لَا يَصْلُحُ، وَإِنْ كَانَ ذَلِكَ قَبْلَ مَحِلِّ الْأَجَلِ، فَإِنَّهُ لَا يَصْلُحُ أَيْضًا إِلَّا أَنْ يَبِيعَهُ ثِيَابًا لَيْسَتْ مِنْ صِنْفِ الثِّيَابِ الَّتِي سَلَّفَهُ فِيهَا
قال مالك: الامر عندنا فيما كان مما يوزن من غير الذهب والفضة: من النحاس والشبه والرصاص والآنك، والحديد، والقضب والتين، والكرسف وما اشبه ذلك، مما يوزن، فلا باس بان يؤخذ من صنف واحد اثنان بواحد يدا بيد، ولا باس ان يؤخذ رطل حديد برطلي حديد ورطل صفر برطلي صفر. قال مالك: ولا خير فيه اثنان بواحد من صنف واحد إلى اجل، فإذا اختلف الصنفان من ذلك، فبان اختلافهما، فلا باس بان يؤخذ منه اثنان بواحد إلى اجل، فإن كان الصنف منه يشبه الصنف الآخر، وإن اختلفا في الاسم مثل الرصاص والآنك والشبه والصفر فإني اكره ان يؤخذ منه اثنان بواحد إلى اجل. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِيمَا كَانَ مِمَّا يُوزَنُ مِنْ غَيْرِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ: مِنَ النُّحَاسِ وَالشَّبَهِ وَالرَّصَاصِ وَالْآنُكِ، وَالْحَدِيدِ، وَالْقَضْبِ وَالتِّينِ، وَالْكُرْسُفِ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، مِمَّا يُوزَنُ، فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤْخَذَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ يَدًا بِيَدٍ، وَلَا بَأْسَ أَنْ يُؤْخَذَ رِطْلُ حَدِيدٍ بِرِطْلَيْ حَدِيدٍ وَرِطْلُ صُفْرٍ بِرِطْلَيْ صُفْرٍ. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا خَيْرَ فِيهِ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ، فَإِذَا اخْتَلَفَ الصِّنْفَانِ مِنْ ذَلِكَ، فَبَانَ اخْتِلَافُهُمَا، فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤْخَذَ مِنْهُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ، فَإِنْ كَانَ الصِّنْفُ مِنْهُ يُشْبِهُ الصِّنْفَ الْآخَرَ، وَإِنِ اخْتَلَفَا فِي الِاسْمِ مِثْلُ الرَّصَاصِ وَالْآنُكِ وَالشَّبَهِ وَالصُّفْرِ فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ جو چیزیں تُل کر بکتی ہیں سوائے چاندی اور سونے کے، جیسے تانبا، اور پیتل، اور رانگ، اور سیسہ، اور لوہا، اور پتے، اور گھاس، اور روئی وغیرہ، ان میں کمی بیشی درست ہے جب کہ نقداً نقد ہو، مثلاً ایک رطل لوہے کو دو رطل لوہے کے بدلے میں، یا ایک رطل پیتل کو دو رطل پیتل کے بدلے میں لینا درست ہے، مگر جب جنس ایک ہو تو وعدے پر لینا درست نہیں۔ اگر جنس مختلف ہو اس طرح کہ کھلم کھلا فرق ہو (جیسے پیتل بدلے میں لوہے کے) تو وعدے پر لینا بھی درست ہے۔ اگر کھلم کھلا فرق نہ ہو صرف نام کا فرق ہو، جیسے قلعی اور سیسہ اور پیتل اور کانسی تو میعاد پر لینا مکروہ ہے۔
قال مالك: وما اشتريت من هذه الاصناف كلها، فلا باس ان تبيعه قبل ان تقبضه من غير صاحبه الذي اشتريته منه، إذا قبضت ثمنه، إذا كنت اشتريته كيلا او وزنا، فإن اشتريته جزافا فبعه من غير الذي اشتريته منه، بنقد او إلى اجل، وذلك ان ضمانه منك إذا اشتريته جزافا، ولا يكون ضمانه منك إذا اشتريته وزنا حتى تزنه وتستوفيه، وهذا احب ما سمعت إلي في هذه الاشياء كلها، وهو الذي لم يزل عليه امر الناس عندنا. قَالَ مَالِكٌ: وَمَا اشْتَرَيْتَ مِنْ هَذِهِ الْأَصْنَافِ كُلِّهَا، فَلَا بَأْسَ أَنْ تَبِيعَهُ قَبْلَ أَنْ تَقْبِضَهُ مِنْ غَيْرِ صَاحِبِهِ الَّذِي اشْتَرَيْتَهُ مِنْهُ، إِذَا قَبَضْتَ ثَمَنَهُ، إِذَا كُنْتَ اشْتَرَيْتَهُ كَيْلًا أَوْ وَزْنًا، فَإِنِ اشْتَرَيْتَهُ جِزَافًا فَبِعْهُ مِنْ غَيْرِ الَّذِي اشْتَرَيْتَهُ مِنْهُ، بِنَقْدٍ أَوْ إِلَى أَجَلٍ، وَذَلِكَ أَنَّ ضَمَانَهُ مِنْكَ إِذَا اشْتَرَيْتَهُ جِزَافًا، وَلَا يَكُونُ ضَمَانُهُ مِنْكَ إِذَا اشْتَرَيْتَهُ وَزْنًا حَتَّى تَزِنَهُ وَتَسْتَوْفِيَهُ، وَهَذَا أَحَبُّ مَا سَمِعْتُ إِلَيَّ فِي هَذِهِ الْأَشْيَاءِ كُلِّهَا، وَهُوَ الَّذِي لَمْ يَزَلْ عَلَيْهِ أَمْرُ النَّاسِ عِنْدَنَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ان چیزوں کو قبضے سے پہلے بیچنا درست ہے سوائے بائع کے اور کسی کے ہاتھ نقد داموں پر، جب ناپ تول کرلیا ہو، اگر ڈھیر لگا کر لیا ہو تو نقد اور اُدھار دونوں طرح بیچنا درست ہے، کیونکہ ڈھیر لگا کر خریدنے میں وہ چیز اسی وقت سے مشتری کی ضمان میں آجاتی ہے، اور ناپ تول کر خریدنے میں جب تک مشتری اس کو پھر ناپ تول نہ لے اور قبضہ نہ کر لے ضمان میں نہیں آتی۔ یہ حکم ان چیزوں کا میں نے اچھا سنا، اور ہمارے نزدیک لوگوں کا عمل اسی پر رہا۔
قال مالك: الامر عندنا فيما يكال او يوزن مما لا يؤكل ولا يشرب مثل: العصفر والنوى، والخبط والكتم وما يشبه ذلك، انه لا باس بان يؤخذ من كل صنف منه اثنان بواحد يدا بيد، ولا يؤخذ من صنف واحد منه اثنان بواحد إلى اجل، فإن اختلف الصنفان فبان اختلافهما، فلا باس بان يؤخذ منهما اثنان بواحد إلى اجل، وما اشتري من هذه الاصناف كلها، فلا باس بان يباع قبل ان يستوفى إذا قبض ثمنه من غير صاحبه الذي اشتراه منه. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِيمَا يُكَالُ أَوْ يُوزَنُ مِمَّا لَا يُؤْكَلُ وَلَا يُشْرَبُ مِثْلُ: الْعُصْفُرِ وَالنَّوَى، وَالْخَبَطِ وَالْكَتَمِ وَمَا يُشْبِهُ ذَلِكَ، أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤْخَذَ مِنْ كُلِّ صِنْفٍ مِنْهُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ يَدًا بِيَدٍ، وَلَا يُؤْخَذُ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ مِنْهُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ، فَإِنِ اخْتَلَفَ الصِّنْفَانِ فَبَانَ اخْتِلَافُهُمَا، فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤْخَذَ مِنْهُمَا اثْنَانِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ، وَمَا اشْتُرِيَ مِنْ هَذِهِ الْأَصْنَافِ كُلِّهَا، فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُبَاعَ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى إِذَا قَبَضَ ثَمَنَهُ مِنْ غَيْرِ صَاحِبِهِ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِنْهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہی حکم ہے کہ جو چیزیں کھانے اور پینے کی نہیں ہیں اور ناپ تول پر بکتی ہیں، جیسے کسم اور گٹھلیاں یا پتے وغیرہ، ان میں کمی بیشی درست ہے اگرچہ جنس ایک ہو، مگر ادھار درست نہیں، اگر جنس مختلف ہو تو ادھار بھی درست ہے، اور ان چیزوں کو قبل قبضے کے بھی بیچنا درست ہے، سوائے بائع کے اور کسی کے ہاتھ جب قیمت نقد لے لے۔
قال مالك: وكل شيء ينتفع به الناس من الاصناف كلها، وإن كانت الحصباء والقصة، فكل واحد منهما بمثليه إلى اجل فهو ربا، وواحد منهما بمثله وزيادة شيء من الاشياء إلى اجل فهو ربا.قَالَ مَالِكٌ: وَكُلُّ شَيْءٍ يَنْتَفِعُ بِهِ النَّاسُ مِنَ الْأَصْنَافِ كُلِّهَا، وَإِنْ كَانَتِ الْحَصْبَاءَ وَالْقَصَّةَ، فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِمِثْلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ فَهُوَ رِبًا، وَوَاحِدٌ مِنْهُمَا بِمِثْلِهِ وَزِيَادَةُ شَيْءٍ مِنَ الْأَشْيَاءِ إِلَى أَجَلٍ فَهُوَ رِبًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جتنی چیزیں ایسی ہیں جو کام میں آتی ہیں جیسے ریتی اور چونا، اگر اپنی جنس کے بدلے میں بیچی جائیں میعاد پر برابر برابر ہوں یا کم وبیش، ناجائز ہیں، اگر نقد بیچی جائیں تو درست ہے اگرچہ کم وبیش ہوں۔