مالك عن يحيى بن سعيد: ان سعيد بن المسيب كان يقول: إذا دبر الرجل جاريته، فإن له ان يطاها، وليس له ان يبيعها ولا يهبها، وولدها بمنزلتها مَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ: أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ كَانَ يَقُولُ: إِذَا دَبَّرَ الرَّجُلُ جَارِيَتَهُ، فَإِنَّ لَهُ أَنْ يَطَأَهَا، وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَبِيعَهَا وَلَا يَهَبَهَا، وَوَلَدُهَا بِمَنْزِلَتِهَا
حضرت سعید بن مسیّب کہتے تھے: جب کوئی شخص اپنی لونڈی کو مدبر کرے تو اس سے وطی کر سکتا ہے، مگر بیع یا ہبہ نہیں کر سکتا، اور اس کی اولاد بھی مثل اپنی ماں کے ہو گی۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21589، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 21704، فواد عبدالباقي نمبر: 40 - كِتَابُ الْمُدَبَّرِ-ح: 5»
ال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا في المدبر. ان صاحبه لا يبيعه. ولا يحوله عن موضعه الذي وضعه فيه. وانه إن رهق سيده دين، فإن غرماءه لا يقدرون على بيعه، ما عاش سيده. فإن مات سيده ولا دين عليه فهو في ثلثه. لانه استثنى عليه عمله ما عاش. فليس له ان يخدمه حياته. ثم يعتقه على ورثته، إذا مات من راس ماله. وإن مات سيد المدبر، ولا مال له غيره، عتق ثلثه. وكان ثلثاه لورثته. فإن مات سيد المدبر، وعليه دين محيط بالمدبر، بيع في دينه. لانه إنما يعتق في الثلث. قال: فإن كان الدين لا يحيط إلا بنصف العبد. بيع نصفه للدين. ثم عتق ثلث ما بقي بعد الدين. َالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِي الْمُدَبَّرِ. أَنَّ صَاحِبَهُ لَا يَبِيعُهُ. وَلَا يُحَوِّلُهُ عَنْ مَوْضِعِهِ الَّذِي وَضَعَهُ فِيهِ. وَأَنَّهُ إِنْ رَهِقَ سَيِّدَهُ دَيْنٌ، فَإِنَّ غُرَمَاءَهُ لَا يَقْدِرُونَ عَلَى بَيْعِهِ، مَا عَاشَ سَيِّدُهُ. فَإِنْ مَاتَ سَيِّدُهُ وَلَا دَيْنَ عَلَيْهِ فَهُوَ فِي ثُلُثِهِ. لِأَنَّهُ اسْتَثْنَى عَلَيْهِ عَمَلَهُ مَا عَاشَ. فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَخْدُمَهُ حَيَاتَهُ. ثُمَّ يُعْتِقَهُ عَلَى وَرَثَتِهِ، إِذَا مَاتَ مِنْ رَأْسِ مَالِهِ. وَإِنْ مَاتَ سَيِّدُ الْمُدَبَّرِ، وَلَا مَالَ لَهُ غَيْرُهُ، عَتَقَ ثُلُثُهُ. وَكَانَ ثُلُثَاهُ لِوَرَثَتِهِ. فَإِنْ مَاتَ سَيِّدُ الْمُدَبَّرِ، وَعَلَيْهِ دَيْنٌ مُحِيطٌ بِالْمُدَبَّرِ، بِيعَ فِي دَيْنِهِ. لِأَنَّهُ إِنَّمَا يَعْتِقُ فِي الثُّلُثِ. قَالَ: فَإِنْ كَانَ الدَّيْنُ لَا يُحِيطُ إِلَّا بِنِصْفِ الْعَبْدِ. بِيعَ نِصْفُهُ لِلدَّيْنِ. ثُمَّ عَتَقَ ثُلُثُ مَا بَقِيَ بَعْدَ الدَّيْنِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ مدبر کو مولیٰ نہ بیچے اور نہ کسی طرح سے اس کی ملک منتقل کرے، اور مولیٰ اگر قرضدار ہو جائے تو اس کے قرض خواہ مدبر کو بیچ نہیں سکتے جب تک اس کا مولیٰ زندہ ہے، اگر مر جائے اور قرض دار نہ ہو تو تہائی مال میں کل مدبر آزاد ہو جائے گا، کیونکہ اگر کل مال میں سے آزاد ہوا تو سراسر مولیٰ کا فائدہ ہے کہ زندگی بھر اس سے خدمت لی پھر مرتے وقت آزادی کا بھی ثواب کما لیا، اور ورثاء کا بالکل نقصان ہے، اگر سوا اس مدبر کے مولیٰ کا کچھ مال نہ ہو تو تہائی مدبر آزاد ہو جائے گا اور دو تہائی وارثوں کا حق ہوگا، اگر مدبر کا مولیٰ مر جائے اور اس قدر مقروض ہو کہ مدبر کی کل قیمت کے برابر، یا اس سے زیادہ تو مدبر کو بیچیں گے، کیونکہ مدبر جب آزاد ہوتا ہے کہ تہائی مال میں گنجائش ہو، اگر قرضہ غلام کے آدھا قیمت کے برابر ہو تو آدھا مدبر کو قرضہ ادا کرنے کے لیے بیچیں گے، اور آدھا جو باقی ہے اس کا ایک تہائی آزاد ہو جائے گا۔
قال مالك: لا يجوز بيع المدبر. ولا يجوز لاحد ان يشتريه إلا ان يشتري المدبر نفسه من سيده فيكون ذلك جائزا له. او يعطي احد سيد المدبر مالا. ويعتقه سيده الذي دبره. فذلك يجوز له ايضا. قال مالك: وولاؤه لسيده الذي دبره. قَالَ مَالِكٌ: لَا يَجُوزُ بَيْعُ الْمُدَبَّرِ. وَلَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ أَنْ يَشْتَرِيَهُ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِيَ الْمُدَبَّرُ نَفْسَهُ مِنْ سَيِّدِهِ فَيَكُونُ ذَلِكَ جَائِزًا لَهُ. أَوْ يُعْطِيَ أَحَدٌ سَيِّدَ الْمُدَبَّرِ مَالًا. وَيُعْتِقُهُ سَيِّدُهُ الَّذِي دَبَّرَهُ. فَذَلِكَ يَجُوزُ لَهُ أَيْضًا. قَالَ مَالِكٌ: وَوَلَاؤُهُ لِسَيِّدِهِ الَّذِي دَبَّرَهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مدبر کا بیچنا درست نہیں اور نہ کسی کو اس کا خریدنا درست ہے، مگر مدبر اپنا آپ مولیٰ سے خرید سکتا ہے، یہ جائز ہے، اور یہ بھی جائز ہے کہ کوئی شخص مدبر کے مولیٰ کو کچھ مال دے، تاکہ وہ اپنے مدبر کو آزاد کر دے، مگر ولاء اس کے مولیٰ کو ملے گی جس نے اس کو مدبر کیا تھا۔
قال مالك: لا يجوز بيع خدمة المدبر. لانه غرر إذ لا يدرى كم يعيش سيده فذلك غرر لا يصلح. قَالَ مَالِكٌ: لَا يَجُوزُ بَيْعُ خِدْمَةِ الْمُدَبَّرِ. لِأَنَّهُ غَرَرٌ إِذْ لَا يُدْرَى كَمْ يَعِيشُ سَيِّدُهُ فَذَلِكَ غَرَرٌ لَا يَصْلُحُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مدبر کی خدمت بیچنا درست نہیں، کیونکہ اس میں دھوکا ہے، معلوم نہیں کہ مولیٰ کب تک زندہ رہے گا، اس وجہ سے خدمت کی بیع مجہول رہے گی۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مدبر کی خدمت کی بیع درست ہے، کیونکہ دارقطنی نے مرفوعاً روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مدبر کی خدمت بیچی، مگر حدیث مرسلاً اور موصولاً دونوں ضعیف ہیں۔
_x000D_ قال مالك في العبد يكون بين الرجلين. فيدبر احدهما حصته: إنهما يتقاومانه. فإن اشتراه الذي دبره كان مدبرا كله. وإن لم يشتره انتقض تدبيره إلا ان يشاء الذي بقي له فيه الرق ان يعطيه شريكه الذي دبره بقيمته. فإن اعطاه إياه بقيمته لزمه ذلك. وكان مدبرا كله. _x000D_ قَالَ مَالِكٌ فِي الْعَبْدِ يَكُونُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ. فَيُدَبِّرُ أَحَدُهُمَا حِصَّتَهُ: إِنَّهُمَا يَتَقَاوَمَانِهِ. فَإِنِ اشْتَرَاهُ الَّذِي دَبَّرَهُ كَانَ مُدَبَّرًا كُلَّهُ. وَإِنْ لَمْ يَشْتَرِهِ انْتَقَضَ تَدْبِيرُهُ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الَّذِي بَقِيَ لَهُ فِيهِ الرِّقُّ أَنْ يُعْطِيَهُ شَرِيكَهُ الَّذِي دَبَّرَهُ بِقِيمَتِهِ. فَإِنْ أَعْطَاهُ إِيَّاهُ بِقِيمَتِهِ لَزِمَهُ ذَلِكَ. وَكَانَ مُدَبَّرًا كُلَّهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو غلام دو آدمیوں میں مشترک ہو اور یہ شخص ان میں سے اپنے حصّے کو مدبر کر دے تو اس کی قیمت لگا دیں گے، اگر جس شخص نے مدبر کیا ہے اس نے دوسرے شریک کا بھی حصّہ خرید لیا تو کل غلام مدبر ہو جائے گا، اگر نہ خریدا تو اس کی تدبیر باطل ہو جائے گی، مگر جس صورت میں جس نے مدبر نہیں کیا وہ اپنے شریک سے قیمت لینے پر راضی ہو جائے، اور قیمت لے لے تو غلام مدبر ہو جائے گا۔
قال مالك: في رجل نصراني دبر عبدا له نصرانيا فاسلم العبد. قال مالك: يحال بينه وبين العبد. ويخارج على سيده النصراني. ولا يباع عليه حتى يتبين امره. فإن هلك النصراني وعليه دين، قضي دينه من ثمن المدبر. إلا ان يكون في ماله ما يحمل الدين. فيعتق المدبر.قَالَ مَالِكٌ: فِي رَجُلٍ نَصْرَانِيٍّ دَبَّرَ عَبْدًا لَهُ نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمَ الْعَبْدُ. قَالَ مَالِكٌ: يُحَالُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْعَبْدِ. وَيُخَارَجُ عَلَى سَيِّدِهِ النَّصْرَانِيِّ. وَلَا يُبَاعُ عَلَيْهِ حَتَّى يَتَبَيَّنَ أَمْرُهُ. فَإِنْ هَلَكَ النَّصْرَانِيُّ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، قُضِيَ دَيْنُهُ مِنْ ثَمَنِ الْمُدَبَّرِ. إِلَّا أَنْ يَكُونَ فِي مَالِهِ مَا يَحْمِلُ الدَّيْنَ. فَيَعْتِقُ الْمُدَبَّرُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر نصرانی اپنے نصرانی غلام کو مدبر کرے، بعد اس کے غلام مسلمان ہو جائے، تو اس کو مولیٰ سے الگ کر دیں گے، یعنی مولیٰ کی خدمت میں نہ رکھیں گے، کیونکہ مسلمانوں کو کافر کی خدمت مناسب نہیں تو اس کو مولیٰ سے الگ کردیں گے۔ اور مولیٰ کی طرف سے بعوض خدمت کے اس غلام پر کچھ محصول مقرر کردیں گےکہ مولیٰ کو ادا کیا کرے گا، مگر اس کو بیچیں گے نہیں جب تک مولیٰ کا حال معلوم نہ ہو۔ اگر نصرانی مولیٰ مقروض ہو کر مرے تو مدبر کو بیچ کر اس کا قرض ادا کریں گے، مگر جب اس قدر مال ہو کہ قرض ادا ہو کر بچ رہے تو بعد قرض کے جس قدر بچے گا اس تہائی میں سے مدبر آزاد ہو جائے گا۔