موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْمُدَبَّرِ
کتاب: مدبر کے بیان میں
5. بَابُ بَيْعِ الْمُدَبَّرِ
مدبر کے بیچنے کا بیان
َالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِي الْمُدَبَّرِ. أَنَّ صَاحِبَهُ لَا يَبِيعُهُ. وَلَا يُحَوِّلُهُ عَنْ مَوْضِعِهِ الَّذِي وَضَعَهُ فِيهِ. وَأَنَّهُ إِنْ رَهِقَ سَيِّدَهُ دَيْنٌ، فَإِنَّ غُرَمَاءَهُ لَا يَقْدِرُونَ عَلَى بَيْعِهِ، مَا عَاشَ سَيِّدُهُ. فَإِنْ مَاتَ سَيِّدُهُ وَلَا دَيْنَ عَلَيْهِ فَهُوَ فِي ثُلُثِهِ. لِأَنَّهُ اسْتَثْنَى عَلَيْهِ عَمَلَهُ مَا عَاشَ. فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَخْدُمَهُ حَيَاتَهُ. ثُمَّ يُعْتِقَهُ عَلَى وَرَثَتِهِ، إِذَا مَاتَ مِنْ رَأْسِ مَالِهِ. وَإِنْ مَاتَ سَيِّدُ الْمُدَبَّرِ، وَلَا مَالَ لَهُ غَيْرُهُ، عَتَقَ ثُلُثُهُ. وَكَانَ ثُلُثَاهُ لِوَرَثَتِهِ. فَإِنْ مَاتَ سَيِّدُ الْمُدَبَّرِ، وَعَلَيْهِ دَيْنٌ مُحِيطٌ بِالْمُدَبَّرِ، بِيعَ فِي دَيْنِهِ. لِأَنَّهُ إِنَّمَا يَعْتِقُ فِي الثُّلُثِ. قَالَ: فَإِنْ كَانَ الدَّيْنُ لَا يُحِيطُ إِلَّا بِنِصْفِ الْعَبْدِ. بِيعَ نِصْفُهُ لِلدَّيْنِ. ثُمَّ عَتَقَ ثُلُثُ مَا بَقِيَ بَعْدَ الدَّيْنِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ مدبر کو مولیٰ نہ بیچے اور نہ کسی طرح سے اس کی ملک منتقل کرے، اور مولیٰ اگر قرضدار ہو جائے تو اس کے قرض خواہ مدبر کو بیچ نہیں سکتے جب تک اس کا مولیٰ زندہ ہے، اگر مر جائے اور قرض دار نہ ہو تو تہائی مال میں کل مدبر آزاد ہو جائے گا، کیونکہ اگر کل مال میں سے آزاد ہوا تو سراسر مولیٰ کا فائدہ ہے کہ زندگی بھر اس سے خدمت لی پھر مرتے وقت آزادی کا بھی ثواب کما لیا، اور ورثاء کا بالکل نقصان ہے، اگر سوا اس مدبر کے مولیٰ کا کچھ مال نہ ہو تو تہائی مدبر آزاد ہو جائے گا اور دو تہائی وارثوں کا حق ہوگا، اگر مدبر کا مولیٰ مر جائے اور اس قدر مقروض ہو کہ مدبر کی کل قیمت کے برابر، یا اس سے زیادہ تو مدبر کو بیچیں گے، کیونکہ مدبر جب آزاد ہوتا ہے کہ تہائی مال میں گنجائش ہو، اگر قرضہ غلام کے آدھا قیمت کے برابر ہو تو آدھا مدبر کو قرضہ ادا کرنے کے لیے بیچیں گے، اور آدھا جو باقی ہے اس کا ایک تہائی آزاد ہو جائے گا۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 40 - كِتَابُ الْمُدَبَّرِ-ح: 5»