وحدثني، عن مالك، انه بلغه، ان القاسم بن محمد، سئل عن رجل طلق امراته البتة، ثم تزوجها بعده رجل آخر، فمات عنها قبل ان يمسها، هل يحل لزوجها الاول ان يراجعها؟ فقال القاسم بن محمد: " لا يحل لزوجها الاول ان يراجعها" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِكٍ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، ثُمَّ تَزَوَّجَهَا بَعْدَهُ رَجُلٌ آخَرُ، فَمَاتَ عَنْهَا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، هَلْ يَحِلُّ لِزَوْجِهَا الْأَوَّلِ أَنْ يُرَاجِعَهَا؟ فَقَالَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ: " لَا يَحِلُّ لِزَوْجِهَا الْأَوَّلِ أَنْ يُرَاجِعَهَا" .
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ حضرت قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دیں، پھر اس سے دوسرے شخص نے نکاح کیا اور وہ جماع کرنے سے پہلے مر گیا، کیا پہلے شوہر کو اس سے نکاح کر لینا درست ہے؟ جواب دیا: نہیں۔
قال مالك، في المحلل: إنه لا يقيم على نكاحه ذلك، حتى يستقبل نكاحا جديدا، فإن اصابها في ذلك، فلها مهرهاقَالَ مَالِكٌ، فِي الْمُحَلِّلِ: إِنَّهُ لَا يُقِيمُ عَلَى نِكَاحِهِ ذَلِكَ، حَتَّى يَسْتَقْبِلَ نِكَاحًا جَدِيدًا، فَإِنْ أَصَابَهَا فِي ذَلِكَ، فَلَهَا مَهْرُهَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص حلالہ کی نیت سے نکاح کرے اس کا نکاح فاسد ہے، پھر نئے سرے سے نکاح کرے، اگر جماع کر چکا ہے تو مہر اس پر واجب ہو گا۔