وحدثني، عن مالك، عن عبد الله بن ابي حبيبة ، قال: قلت لرجل وانا حديث السن ما على الرجل، ان يقول: علي مشي إلى بيت الله، ولم يقل علي نذر مشي، فقال لي رجل: هل لك ان اعطيك هذا الجرو لجرو قثاء في يده، وتقول علي مشي إلى بيت الله، قال: فقلت: نعم، فقلته وانا يومئذ حديث السن، ثم مكثت حتى عقلت، فقيل لي: إن عليك مشيا، فجئت سعيد بن المسيب ، فسالته عن ذلك، فقال لي: " عليك مشي فمشيت" . قال مالك: وهذا الامر عندناوَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ ، قَالَ: قُلْتُ لِرَجُلٍ وَأَنَا حَدِيثُ السِّنِّ مَا عَلَى الرَّجُلِ، أَنْ يَقُولَ: عَلَيَّ مَشْيٌ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ، وَلَمْ يَقُلْ عَلَيَّ نَذْرُ مَشْيٍ، فَقَالَ لِي رَجُلٌ: هَلْ لَكَ أَنْ أُعْطِيَكَ هَذَا الْجِرْوَ لِجِرْوِ قِثَّاءٍ فِي يَدِهِ، وَتَقُولُ عَلَيَّ مَشْيٌ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ، قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقُلْتُهُ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ، ثُمَّ مَكَثْتُ حَتَّى عَقَلْتُ، فَقِيلَ لِي: إِنَّ عَلَيْكَ مَشْيًا، فَجِئْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ لِي: " عَلَيْكَ مَشْيٌ فَمَشَيْتُ" . قَالَ مَالِك: وَهَذَا الْأَمْرُ عِنْدَنَا
حضرت عبداللہ بن ابی حبیبہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا ایک شخص سے اور میں کم سن تھا کہ اگر کوئی شخص صرف اتنا ہی کہے کہ «عَلَيَّ مَشْيٌ إِلَى بَيْتِ اللّٰهِ» یعنی میرے اوپر پیدل چلنا ہے بیت اللہ تک، اور یہ نہیں کہے کہ میرے اوپر نذر ہے پیدل چلنے کی بیت اللہ تک، تو اس پر کچھ لازم نہیں آتا۔ وہ شخص مجھ سے بولا کہ میرے ہاتھ میں یہ ککڑی ہے تجھے دیتا ہوں، تو اتنا کہہ دے کہ میرے اوپر پیدل چلنا ہے بیت اللہ تک، میں نے کہا: ہاں، کہتا ہوں، تو میں نے کہہ دیا اور میں کم سن تھا۔ پھر ٹھہر کر تھوڑی دیر میں مجھے عقل آئی اور لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تجھ پر پیدل چلنا بیت اللہ تک واجب ہوا۔ میں سعید بن مسیّب کے پاس آیا اور ان سے پوچھا، انہوں نے بھی کہا کہ تجھ پر پیدل چلنا واجب ہوا بیت اللہ تک، تو میں پیدل چلا بیت اللہ تک۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه البخاری فى «تاريخ الكبير» برقم: 75/4 وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم:12337، 12421، فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 3»