موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر

موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: جہاد کے بیان میں
19. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْخَيْلِ وَالْمُسَابَقَةِ بَيْنَهَا ، وَالنَّفَقَةِ فِي الْغَزْوِ
19. گھوڑوں کا اور گھڑ دوڑ کا بیان اور جہاد میں صرف کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1006
Save to word اعراب
وحدثني، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من انفق زوجين في سبيل الله نودي في الجنة، يا عبد الله هذا خير فمن كان من اهل الصلاة، دعي من باب الصلاة، ومن كان من اهل الجهاد، دعي من باب الجهاد، ومن كان من اهل الصدقة، دعي من باب الصدقة، ومن كان من اهل الصيام، دعي من باب الريان"، فقال ابو بكر الصديق: يا رسول الله، ما على من يدعى من هذه الابواب من ضرورة، فهل يدعى احد من هذه الابواب كلها؟ قال:" نعم، وارجو ان تكون منهم" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ نُودِيَ فِي الْجَنَّةِ، يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا خَيْرٌ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ، دُعِيَ مِنْ بَاب الصَّلَاةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ، دُعِيَ مِنْ بَاب الْجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ، دُعِيَ مِنْ بَاب الصَّدَقَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ، دُعِيَ مِنْ بَاب الرَّيَّانِ"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا عَلَى مَنْ يُدْعَى مِنْ هَذِهِ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، فَهَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأَبْوَابِ كُلِّهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ، وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ایک جوڑا (مثلاً دو اونٹ یا دو بکریاں یا دو روپے) صرف کرے اللہ کی راہ میں تو قیامت کے روز جنت کے دروازے پر پکارا جائے گا: اے بندے اللہ کے! یہ خیر ہے، تو جو شخص نمازی ہو گا وہ نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا، جو شخص جہادی ہو گا وہ جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا، جو شخص صدقہ دینے والا ہو گا وہ صدقہ کے دروازے سے بلایا جائے گا، جو شخص روزے بہت رکھے گا وہ باب الریان سے بلایا جائے گا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم! جو شخص کسی ایک دروازے سے بلایا جائے اس کو کچھ حرج نہ ہو گا، مگر کوئی ایسا بھی ہوگا جو سب دروازوں سے بلایا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور مجھے امید ہے کہ تم ان میں سے ہو گے۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1897، 2841، 3216، 3666، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1027، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2480، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 308، 3418، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3185، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2231، 2558، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3674، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18635، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7748، 8912، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1212، والبزار فى «مسنده» برقم: 8078، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 49»

حدیث نمبر: 1007Q1
Save to word اعراب
سئل مالك عن إمام قبل الجزية من قوم فكانوا يعطونها. ارايت من اسلم منهم. اتكون له ارضه، او تكون للمسلمين، ويكون لهم ماله؟ فقال مالك: ذلك يختلف. اما اهل الصلح، فإن من اسلم منهم فهو احق بارضه وماله. واما اهل العنوة الذين اخذوا عنوة، فمن اسلم منهم فإن ارضه وماله للمسلمين. لان اهل العنوة قد غلبوا على بلادهم. وصارت فيئا للمسلمين. واما اهل الصلح فإنهم قد منعوا اموالهم وانفسهم. حتى صالحوا عليها. فليس عليهم إلا ما صالحوا عليه.سُئِلَ مَالِكٌ عَنْ إِمَامٍ قَبِلَ الْجِزْيَةَ مِنْ قَوْمٍ فَكَانُوا يُعْطُونَهَا. أَرَأَيْتَ مَنْ أَسْلَمَ مِنْهُمْ. أَتَكُونُ لَهُ أَرْضُهُ، أَوْ تَكُونُ لِلْمُسْلِمِينَ، وَيَكُونُ لَهُمْ مَالُهُ؟ فَقَالَ مَالِكٌ: ذَلِكَ يَخْتَلِفُ. أَمَّا أَهْلُ الصُّلْحِ، فَإِنَّ مَنْ أَسْلَمَ مِنْهُمْ فَهُوَ أَحَقُّ بِأَرْضِهِ وَمَالِهِ. وَأَمَّا أَهْلُ الْعَنْوَةِ الَّذِينَ أُخِذُوا عَنْوَةً، فَمَنْ أَسْلَمَ مِنْهُمْ فَإِنَّ أَرْضَهُ وَمَالَهُ لِلْمُسْلِمِينَ. لِأَنَّ أَهْلَ الْعَنْوَةِ قَدْ غُلِبُوا عَلَى بِلَادِهِمْ. وَصَارَتْ فَيْئًا لِلْمُسْلِمِينَ. وَأَمَّا أَهْلُ الصُّلْحِ فَإِنَّهُمْ قَدْ مَنَعُوا أَمْوَالَهُمْ وَأَنْفُسَهُمْ. حَتَّى صَالَحُوا عَلَيْهَا. فَلَيْسَ عَلَيْهِمْ إِلَّا مَا صَالَحُوا عَلَيْهِ.
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ اگر امام نے کسی قوم پر کافروں کا جزیہ مقرر کیا، ان کافروں میں سے کوئی شخص مسلمان ہو گیا تو اس کی زمین اور جائیداد اسی کو ملے گی یا مسلمانوں کی ملک ہو جائے گی؟ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ اس میں دو صورتیں ہیں، اگر وہ کافر صلح کر کے خوشی سے بغیر جنگ کے جزیہ پر راضی ہو گئے ہیں، ان میں سے جو کوئی مسلمان ہو گا اس کی زمین اور جائیداد اسی کو ملے گی۔ اگر وہ کفار جنگ کر کے تلوار کے زور سے مطیع ہوئے ہوں تو ان کی زمین اور جائیداد مسلمانوں کی ملک ہو جائے گی، اگرچہ کوئی ان میں سے مسلمان ہو جائے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 49»


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.