اخبرنا الشياخبرنا الشيخ الإمام العالم الزاهد الحافظ تقي الدين ابو محمد عبد الغني بن عبد الواحد بن علي بن سرور المقدسي احسن الله توفيقه، ثنا ابو الحسن سعد الله بن نصر بن الدجاجي، وابو المعالي احمد بن عبد الغني ابن حنيفة الباجسرائي ببغداد قالا: ثنا الإمام ابو منصور محمد بن احمد بن علي المقرئ المعروف بالخياط، قال: ثنا ابو طاهر عبد الغفار بن زيد بن زيد المؤدب قراءة عليه، وانا اسمع في سنة سبع وعشرين واربعمائة فاقر به قال: ثنا ابو علي محمد بن احمد بن الحسن بن الصواف قراءة عليه وانا اسمع قال: ثنا بشر بن موسي قال:خ الإمام العالم الزاهد الحافظ تقي الدين ابو محمد عبد الغني بن عبد الواحد بن علي بن سرور المقدسي احسن الله توفيقه، ثنا ابو الحسن سعد الله بن نصر بن الدجاجي، وابو المعالي احمد بن عبد الغني ابن حنيفة الباجسرائي ببغداد قالا: ثنا الإمام ابو منصور محمد بن احمد بن علي المقرئ المعروف بالخياط، قال: ثنا ابو طاهر عبد الغفار بن زيد بن زيد المؤدب قراءة عليه، وانا اسمع في سنة سبع وعشرين واربعمائة فاقر به قال: ثنا ابو علي محمد بن احمد بن الحسن بن الصواف قراءة عليه وانا اسمع قال: ثنا بشر بن موسي قال:أَخْبَرَنَا الشَّيْأَخْبَرَنَا الشَّيْخُ الْإِمَامُ الْعَالِمُ الزَّاهِدُ الْحَافِظُ تَقِيُّ الدِّينِ أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الْغَنِيِّ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ سُرُورٍ الْمَقْدِسِيُّ أَحْسَنَ اللَّهُ تَوْفِيقَهُ، ثنا أَبُو الْحََسَنِ سَعْدُ اللَّهِ ْبْنُ نَصْرِ بْنِ الدَّجَاجِيِّ، وَأَبُو الْمَعَالِي أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْغَنِيِّ ابِنِ حَنِيفَةَ الْبَاجِسْرَائِيُّ بِبَغْدَادَ قَالَا: ثنا الْإِمَامُ أَبُو مَنْصُورٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقْرِئُ الْمَعْرُوفُ بْالْخَيَّاطِ، قَالَ: ثنا أَبُو طَاهِرٍ عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ زَيْدِ بْنِ زَيْدٍ الْمُؤَدِّبُ قِرَاءَةُ عَلَيْهِ، وَأَنَا أَسْمَعُ فِي سَنَةِ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ وَأَرْبَعِمِائَةٍ فَأَقَرَّ بِهِ قَالَ: ثنا أَبُو عَلِيٍّ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ الصَّوَّافِ قِرَاءَةُ عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ قَالَ: ثنا بِشْرُ بْنُ مُوسَي قَالَ:خُ الْإِمَامُ الْعَالِمُ الزَّاهِدُ الْحَافِظُ تَقِيُّ الدِّينِ أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الْغَنِيِّ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ سُرُورٍ الْمَقْدِسِيُّ أَحْسَنَ اللَّهُ تَوْفِيقَهُ، ثنا أَبُو الْحََسَنِ سَعْدُ اللَّهِ ْبْنُ نَصْرِ بْنِ الدَّجَاجِيِّ، وَأَبُو الْمَعَالِي أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْغَنِيِّ ابِنِ حَنِيفَةَ الْبَاجِسْرَائِيُّ بِبَغْدَادَ قَالَا: ثنا الْإِمَامُ أَبُو مَنْصُورٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقْرِئُ الْمَعْرُوفُ بْالْخَيَّاطِ، قَالَ: ثنا أَبُو طَاهِرٍ عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ زَيْدِ بْنِ زَيْدٍ الْمُؤَدِّبُ قِرَاءَةُ عَلَيْهِ، وَأَنَا أَسْمَعُ فِي سَنَةِ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ وَأَرْبَعِمِائَةٍ فَأَقَرَّ بِهِ قَالَ: ثنا أَبُو عَلِيٍّ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ الصَّوَّافِ قِرَاءَةُ عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ قَالَ: ثنا بِشْرُ بْنُ مُوسَي قَالَ:
864 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا شبيب بن غرقدة، قال: سمعت عروة بن ابي الجعد البارقي، يقول: سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم، يقول: «الخيل معقود في نواصيها الخير إلي يوم القيامة» 864 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا شَبِيبُ بْنُ غَرْقَدَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْبَارِقِيِّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَي يَوْمٍ الْقِيَامَةٍ»
864- سیدنا عروہ بن ابوجعد بارقی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت کے دن تک کے لیے بھلائی رکھ دی گئی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2850، 2852، 3119، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1873، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3576، 3577، 3578، 3579، والترمذي فى «جامعه» ، برقم: 1694، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2470، 2471، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2305، 2786، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11728، 11729، 13010، 13011، 18037، 18548، 19803، 19804، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 19662 برقم: 19663»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:864
فائدہ: سنن النسائی کی ایک مفصل حدیث میں انھی الفاظ کا ذکر ہے وہ مفصل حدیث درج ذیل ہے: (3591) سلمہ بن نفیل کندی کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس وقت ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! لوگوں نے گھوڑوں کی اہمیت اور قدرو قیمت ہی گھٹا دی، ہتھیا ر اتار کر رکھ دیے اور کہتے ہیں: اب کوئی جہاد نہیں رہا، لڑائی موقوف ہو چکی ہے۔ یہ سنتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ اس کی طرف کیا اور (پورے طور پر متوجہ ہو کر) فرمایا: ”غلط اور جھوٹ کہتے ہیں، (صحیح معنوں میں) لڑائی کا وقت تو اب آیا ہے، میری امت میں سے تو ایک امت (ایک جماعت) حق کی خاطر ہمیشہ برسر پیکار رہے گی اور اللہ تعالیٰ کچھ قوموں کے دلوں کو ان کی خاطر کچی میں مبتلا رکھے گا اور انھیں (اہل حق کو) ان ہی (گمراہ لوگوں) کے ذریعہ روزی ملے گی، یہ سلسلہ قیامت ہونے تک چلتا رہے گا، جب تک اللہ کا وعدہ (متقیوں کے لیے جنت اور مشرکوں و کافروں کے لیے جہنم) پورا نہ ہو جائے گا، قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی (خیر) بندھی ہوئی ہے اور مجھے بذریعہ وحی یہ بات بتا دی گئی ہے کہ جلد ہی میرا انتقال ہو جائے گا اور تم لوگ مختلف گروہوں میں بٹ کر میری اتباع (کا دعوی) کرو گے اور حال یہ ہوگا کہ سب (اپنے متعلق حق پر ہونے کا دعوی کرنے کے باوجود) ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہوں گے اور مسلمانوں کے گھر کا آنگن (جہاں وہ پڑاؤ کر سکیں ٹھہر سکیں، کشادگی سے روکیں) شام ہوگا“۔ انتہی نیز اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ گھوڑوں میں ان کے مالکوں کے لیے بھلائی اور خیر رکھ دی گئی ہے، اس لیے گھوڑوں کو جنگ وقتال کے لیے ہر وقت تیار رکھو۔ موجودہ دور میں جدید سے جدید اسلحہ تیار رکھنا مراد ہے، اب جنگیں گھوڑوں کے ذریعے نہیں بلکہ ایٹم بمبوں اور کلاشن کے ذریعے ہوتی ہیں۔ نواصی الخیل سے مراد وہ بال ہیں جو گھوڑے کی پیشانی پر لٹکے ہوتے ہیں۔ حدیث میں صرف یہ بال ہی مراد نہیں بلکہ مکمل گھوڑ ا مراد ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 864
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2305
´جانور پالنے کا بیان۔` عروہ بارقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اونٹ ان کے مالکوں کے لیے قوت کی چیز ہے، اور بکریاں باعث برکت ہیں، اور گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لیے بھلائی بندھی ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2305]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اونٹ کے فوائد بہت زیادہ ہیں، خاص طورپر صحرائی علاقوں میں اس کی اہمیت آج بھی قائم ہے۔
(2) بکریاں زیادہ بچے دیتی ہیں اور وہ جلد بڑے ہو جاتے ہیں۔ اور وہ ہر قسم کی چارہ اور درختوں کے پتے وغیرہ کھا لیتی ہیں، اس لیے انہیں باعث برکت قرار دیا گیا ہے۔
(3) گھوڑوں کی برکت کی وضاحت دوسری حدیث میں”ثواب اور غنیمت“ سے کی گئی ہے، یعنی یہ جہاد میں کام آنے والے ہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، باب: الجھاد ماض مع البر والفاجر، حدیث: 2852)
(4) جانور پالنا حلال روزی کا ایک ذریعہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2305