72- جابر بن سمرہ سوائی بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے یہ کہے ہوئے سنا: اللہ کی قسم! اہل کوفہ نے تمہاری ہر معاملے میں شکایت کی ہے، یہاں تک کہ انہوں نے یہ بھی بیان کیا ہے تم انہیں صحیح طریقے سے نماز نہیں پڑھاتے ہو، تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ظہر اور عصر کی نماز میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز کے مطابق، نماز پڑھانے کے حوالے سے، میں ان کے ساتھ کوتاہی نہیں کرتا۔ میں پہلی دور رکعات طویل ادا کرتا ہوں اور آخری دو رکعات کچھ مختصر کردیتا ہوں۔
راوی کہتے ہیں۔ تو میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ”تمہارے بارے میں یہی گمان تھا۔ تمہارے بارے میں یہی گمان تھا۔“
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:72
فائدہ:
اس حدیث میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا سعد بن أبي وقاص رضی اللہ عنہ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ امیر اور حکمران کو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ اسے اگر کسی عامل یا ملازم کے متعلق شکایت موصول ہوتو وہ اس کی تحقیق کرے۔ اگر شکایت غلط ثابت ہو تو اس کی تردید کرے اور جس کے خلاف شکایت ہوئی تھی اس کی تحسین کرے، نیز دیکھیں (حد یث: 73)۔ افسوس کہ ہمارے زمانے میں تحقیق کا ذوق ختم ہو چکا ہے۔ چاپلوسیاں کر نے والے جو بات بھی امیر یا مدیر کو جا کر بتا دیں، وہ بغیر تحقیق کے اس پر یقین کر کے فتنہ اور طوفان بدتمیزی برپا کر دیتے ہیں۔ جس کے خلاف شکایت لگی ہو اس کو نشان عبرت بنا دیتے ہیں، خواہ وہ سو فیصد اس الزام سے بری ہو۔ اللہ تعالیٰ تمام کو ہدایت عطا فرماۓ، آمین۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ظہر اور عصر کی نماز میں پہلی دو رکعات لمبی کرنا اور آخری دو رکعات مختصر کرنا مسنون ہے اور ان کی تفصیل حدیث میں موجود ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 72
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 755
´امام اور مقتدی کے لیے قرآت کا واجب ہونا`
«. . . شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَعَزَلَهُ وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لَا تُحْسِنُ تُصَلِّي، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: أَمَّا أَنَا وَاللَّهِ فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . .»
”. . . اہل کوفہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔ اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مغزول کر کے عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا . . .“ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 755]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑے دقیق لفظوں سے یہ اشارہ فرمایا کہ سورہ فاتحہ پڑھنا امام، مقتدی، حضر، سفر چاہے جہری نماز ہو یا سری نماز ہو سب میں پڑھنا واجب ہے دلیل کے طور پر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی جو طویل حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ تھے:
➊ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور اپنی نماز میں کوتاہی نہیں کرتا میں ان کو اسی طرح نماز پڑھاتا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے۔
➋ عشاء کی نماز میں پہلی دو رکعتوں کو لمبا کرتا اور بعد کی دو رکعتوں کو ہلکا کرتا۔
یہاں سے باب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء وغیرہ کی نماز میں سورة الفاتحہ پڑھتے اور صحابی سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ میں وہی کرتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے یعنی وہ بھی سورة الفاتحہ پڑھتے اور اس کو بھی یاد رکھا جائے کہ عشاء کی نماز جہری ہے جب اس میں سورة الفاتحہ پڑھنا ثابت ہوا تو سری نماز میں سورة الفاتحہ پڑھنا بالاولیٰ ثابت ہو گا، اس کے علاوہ سورة الفاتحہ پڑھنے کے حکم کو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ مطلق لے رہے ہیں کہ ہر نماز میں چاہے وہ مقتدی ہو یا امام لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
فائدہ:
➊ مذکورہ بالا حدیث سے امام کا چاروں رکعتوں میں قرأت کرنے کا ثبوت موجود ہے۔
➋ خصوصاً سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا چاہے وہ نماز جہری ہو یا سری
➌ کوفہ والوں کی شرارتیں اور بے ایمانی کے معاملات مخفی نہیں۔ صحابی رسول سیدنا سعید رضی اللہ عنہ پر انہوں نے الزامات لگائے جو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔
➍ سعد رضی اللہ عنہ مستجاب الدعوات تھے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعا دی تھی:
«اللهم استجب لسعد» [رواه الطبراني بطريق الشعبي]
”اے اللہ! سعد جب دعا کرے تو اس کی دعا قبول فرما۔“
➎ حضر اور سفر میں قرأت کا کرنا مشروع ہے۔
➏ اگر کسی سردار کی خلیفہ کے پاس شکایت آئے تو اسے معزول کرنا جائز ہے۔
➐ اس حدیث سے تحقیق کرنا بھی ثابت ہوا کیونکہ سعد رضی اللہ عنہ جہاں کے امیر تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں کے لوگوں کو بھیج کر تحقیق کروائی۔
➑ ظالم پر بددعا کرنا بھی جائز ہوا جب کہ اس سے دین میں نقصان ہو۔
اسی باب کے ذیل میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک اور حدیث کا ذکر فرمایا:دیکھئیے: حدیث صحیح بخاری [757]
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 191
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 803
´بعد کی دونوں رکعتیں ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: لوگوں (یعنی اہل کوفہ) نے آپ کی ہر چیز میں شکایت کی ہے حتیٰ کہ نماز کے بارے میں بھی، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں پہلی دونوں رکعتیں لمبی کرتا ہوں اور پچھلی دونوں رکعتیں مختصر پڑھتا ہوں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے طریقہ نماز کی) پیروی کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے آپ سے یہی توقع تھی۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 803]
803۔ اردو حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے استدلال یہ ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں قرأت واجب ہے۔ دیکھئے: «باب وجوب القرأت الامام والماموم فى الصلواة كلها . . . الخ» [سنن ابی داود حديث 755]
اس سے پچھلی دو رکعتو ں میں پہلی دو رکعتوں کے مقابلے میں تخفیف کا اثبات ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 803
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1016
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ کوفہ والوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی شکایت کی، اور ان کی نماز پر اعتراض کیا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں بلوایا تو وہ آئے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کوفہ والوں نے جو نماز کی شکایت کی تھی، اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے (سعد) کہا، میں انہیں رسول اللہ ﷺ کی طرح نماز پڑھاتا ہوں، میں اس میں کمی نہیں کرتا، میں انہیں پہلی دو رکعتیں لمبی پڑھاتا ہوں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1016]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
ذَكَرُوا مِنْ صَلَاتِهِ:
ان کی نماز کی شکایت کی،
اس پر اعتراض کیا یا اس میں عیب نکالا۔
(2)
مَا أَخْرِمُ:
(ن)
خرم شگاف ڈالنے یا سوراخ نکالنے کو کہتے ہیں،
مراد ہے میں کمی نہیں کرتا۔
(3)
أَرْكُدُ:
(ن)
:
ركود،
ٹھہرنے اور رکنے کو کہتے ہیں،
مراد ہے پہلی دو رکعتیں لمبی کرتا ہوں۔
(4)
أَحْذِفُ:
(ض)
ہلکی کرتا ہوں اور ان میں قراءت کم کرتا ہوں،
ابو إسحاق:
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1016
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1018
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ لوگوں نے تیری ہر چیز، حتیٰ کہ نماز پڑھانے کی بھی شکایت کی ہے، حضرت سعد ؓ نے کہا رہا میں تو میں پہلی دو رکعتوں میں قیام لمبا کرتا ہوں آخری دو رکعتوں میں تھوڑا قیام کرتا ہوں، اور جس طرح میں نے رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھی تھی، اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا۔ تو عمر ؓ نے کہا، آپ کے بارے میں یہی گمان تھا،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1018]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
مَاآلُو:
میں کمی یا کوتاہی نہیں کرتا۔
الا (ن)
الواء اُلُوًّا کمی یا کوتاہی کرنا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1018
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 755
755. حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اہل کوفہ نے حضرت عمر ؓ سے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی شکایت کی تو حضرت عمر ؓ نے انہیں معزول کر کے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو ان (کوفیوں) پر تعینات کر دیا۔ الغرض ان لوگوں نے حضرت سعد ؓ کی بہت شکایات کیں۔ یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اچھی نماز نہیں پڑھتے۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے انہیں بلا بھیجا اور کہا: اے ابواسحاق! یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم نماز اچھی طرح نہیں پڑھتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں انہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھاتا تھا۔ میں نے اس میں ذرہ بھر بھی کوتاہی کو روا نہیں رکھا۔ میں نماز عشاء پڑھاتا تو پہلی دو رکعتوں میں زیادہ دیر لگاتا اور آخری دو رکعتوں میں تخفیف کرتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اے ابو اسحاق! تمہاری نسبت ہمارا گمان یہی ہے۔ پھر آپ نے ایک شخص یا چند اشخاص کو حضرت سعد ؓ کے ہمراہ کوفہ روانہ کیا (تاکہ وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:755]
حدیث حاشیہ:
حضرت سعد ؓ نے نماز کی جوتفصیل بیان کی اوراس کونبی ﷺ کی طرف منسوب کیااسی سے باب کے جملہ مقاصد ثابت ہوگئے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، یہ مستجاب الدعوات تھے، آنحضرت ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی تھی۔
عہدفاروقی میں یہ کوفہ کے گورنر تھے۔
مگرکوفہ والوں کی بے وفائی مشہور ہے۔
انھوں نے حضرت سعد ؓ کے خلاف جھوٹی شکایتیں کیں۔
آخرحضرت عمرؓ نے وہاں کے حالات کا اندازہ فرماکر حضرت عمار ؓ کو نماز پڑھانے کے لیے اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو بیت المال کی حفاظت کے لیے مقرر فرمایا۔
حضرت سعدرؓ کی فضیلت کے لیے یہ کافی ہے کہ جنگ احد میں انھوں نے آنحضرت ﷺ کے بچاؤ کے لیے بے نظیر جرات کا ثبوت دیا۔
جس سے خوش ہوکر آنحضرت ﷺ نے فرمایا، اے سعد! تیرچلا، تجھ پر میرے ماںباپ فداہوں۔
یہ فضیلت کسی اورصحابی کو نصیب نہیں ہوئی۔
جنگ ایران میں انھوں نے شجاعت کے وہ جوہر دکھلائے جن سے اسلامی تاریخ بھرپورہے۔
سارے ایران پر اسلامی پرچم لہرایا۔
رستم ثانی کو میدان کارزار میں بڑی آسانی سے مارلیا۔
جواکیلا ہزار آدمیوں کے مقابلہ پربھاری سمجھا جاتا تھا۔
حضرت سعد ؓ نے اسامہ بن قتادہ کوفی کے حق میں بددعا کی جس نے آپ پرالزامات لگائے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت سعد ؓ کی دعا قبول کی اور وہ نتیجہ ہوا جس کا یہاں ذکر موجود ہے۔
معلوم ہوا کہ کسی پرناحق کوئی الزام لگانابہت بڑا گناہ ہے۔
ایسی حالت میں مظلوم کی بددعا سے ڈرنا ایمان کی خاصیت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 755
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 770
770. حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے فرمایا: اہل کوفہ نے آپ کے متعلق ہر معاملہ حتی کہ نماز کے متعلق بھی شکایت کی ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے جواب دیا: میں پہلی دو رکعات میں طوالت اور آخری دو رکعات میں اختصار کرتا ہوں۔ اور جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز کی اقتدا کی ہے کبھی اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: آپ نے سچ کہا۔ میرا بھی آپ کے متعلق یہی گمان تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:770]
حدیث حاشیہ:
پہلی دورکعات میں قرات طویل کرنا اوردوسری دورکعات میں مختصرکرنا یعنی صرف سورۃ فاتحہ پر کفایت کرنایہی مسنون طریقہ ہے۔
حضرت عمرؓ نے حضرت سعد ؓ کا بیان سن کر اظہاراطمینان فرمایا مگر کوفہ کے حالات کے پیش نظر حضرت سعدؓ کو وہاں سے بلا لیا۔
جو حضرت عمر ؓ کی کمال دوراندیشی کی دلیل ہے۔
بعض مواقع پر ذمہ داروں کو ایسا اقدام کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 770
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:755
755. حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اہل کوفہ نے حضرت عمر ؓ سے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی شکایت کی تو حضرت عمر ؓ نے انہیں معزول کر کے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو ان (کوفیوں) پر تعینات کر دیا۔ الغرض ان لوگوں نے حضرت سعد ؓ کی بہت شکایات کیں۔ یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اچھی نماز نہیں پڑھتے۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے انہیں بلا بھیجا اور کہا: اے ابواسحاق! یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم نماز اچھی طرح نہیں پڑھتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں انہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھاتا تھا۔ میں نے اس میں ذرہ بھر بھی کوتاہی کو روا نہیں رکھا۔ میں نماز عشاء پڑھاتا تو پہلی دو رکعتوں میں زیادہ دیر لگاتا اور آخری دو رکعتوں میں تخفیف کرتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اے ابو اسحاق! تمہاری نسبت ہمارا گمان یہی ہے۔ پھر آپ نے ایک شخص یا چند اشخاص کو حضرت سعد ؓ کے ہمراہ کوفہ روانہ کیا (تاکہ وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:755]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
حضرت عمر ؓ نے انھیں چودہ ہجری میں ایران فتح کرنے پر مامور کیا، عراق پر بھی ایرانیوں کی حکومت تھی، عراق فتح ہونے کے بعد سترہ ہجری میں وہاں کوفہ اور بصرہ نئے شہر آباد کرنے کا منصوبہ زیر بحث آیا، چنانچہ ان کی نگرانی میں یہ دونوں شہر آباد ہوئے۔
حضرت سعد ؓ اکیس ہجری تک وہاں کے گورنر رہے، اسی ضمن میں اہل کوفہ کے چند شرپسندوں نے انھیں بدنام کرنے کے لیے ان کے خلاف جھوٹی شکایات کا پلندہ تیار کیا۔
شکایات کرنے والوں میں قبیلۂ بنو اسد کے جراح بن سنان، قبیصہ اور اربد، نیز ان کے علاوہ ایک اور شخص اشعت بن قیس پیش پیش تھے۔
حضرت عمر ؓ نے انھیں معزول کرکے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو نماز پڑھانے کے لیے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو بیت المال کی نگرانی اور حضرت عثمان بن حنیف ؓ کو مفتوحہ علاقوں کی پیمائش کرنے پر مامور فرمایا۔
روایات میں وضاحت ہے کہ جب حضرت عمر ؓ نے تفتیش کی تو تمام شکایات بے سروپا ثابت ہوئیں۔
آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت سعد ؓ کو ان کی بے بسی، عاجزی یا خیانت کی بنا پر معزول نہیں کیا۔
حضرت سعد نے اس حدیث میں نماز کے متعلق جو تفصیل بیان کی ہے، اسے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا۔
اس سے عنوان بالا کے جملہ مقاصد ثابت ہوتے ہیں، چنانچہ شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے حدیث سعد کو مذکورہ عنوان کے تحت بیان کیا ہے کیونکہ اس میں عشاء کی پہلی دو رکعات کو لمبا اور آخری دو رکعات کو ہلکا کرنے کا بیان ہے۔
اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعد ؓ نماز کی کسی رکعت میں قراءت ترک نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی نماز جیسی نماز پڑھاتا ہوں۔
جب اس وضاحت کو رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کے ساتھ ملایا جائے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے تو اس سے نماز میں قراءت کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔
چونکہ حضرت سعد امام تھے، اس لیے عنوان کے ایک جز کے ساتھ مطابقت ہو گئی۔
عنوان کے دیگر اجزاء دوسری احادیث سے ثابت ہوتے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔
واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت سعد کے ہمراہ حقیقت حال کا جائزہ لینے کے لیے حضرت محمد بن مسلمہ اور عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہم کو بھیجا تھا۔
(فتح الباري: 308/2۔
310) (2)
امام بخاری ؒ کا وجوب قراءت فاتحہ کے ثبوت میں، حدیث سعد ؓ کا انتخاب کرنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ ہمارے وجدان کے مطابق یہ آپ کی دور اندیش اور بالغ نظری کا ایک بین اور واضح ثبوت ہے کیونکہ جس طرح سفہائے عراق نے حضرت سعد کی نماز کے خلاف طوفان بدتمیزی کھڑا کیا، اس طرح فقہائے عراق نے نماز کی قراءت کو تختۂ مشق بنایا ہے۔
قبیلۂ بنو اسد کے چند اوباش اور شرپسند لوگوں کو مستجاب الدعوات اور صحابئ جلیل حضرت سعد ؓ کی نماز کے متعلق یہی اعتراض تھا کہ یہ اپنی نماز کی تمام رکعات میں مساویانہ قراءت کیوں نہیں کرتے، اس کے برعکس ان کا پہلی دو رکعات کو طویل کرنا چہ معنی دارد؟ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے ان جہلاء کے اعتراض کی وضاحت کی ہے۔
(فتح الباري: 309/2)
بلکہ اس جہلانہ اعتراض کے پیش نظر حضرت سعد ؓ نے ان کے متعلق بایں الفاظ تبصرہ فرمایا کہ گنوار مجھے نماز سکھانے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1019 (453)
فقہائے عراق بھی اسی قراءت کے متعلق تضادات کا شکار ہیں، چنانچہ ان کے ہاں مطلق قراءت فرض ہے، قراءت فاتحہ واجب اور قراءت فاتحہ خلف الامام کے متعلق کوئی نرم گوشہ نہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ قراءت فاتحہ امام اور منفرد کے لیے پہلی دورکعات میں واجب ہے۔
اگر ان میں بھی سہوا رہ جائے تو سجدۂ سہو سے کام چل جائے گا، ان رکعات کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ واجب کے ترک کر دینے کی تلافی سجدۂ سہو ہوسکتی ہے۔
دوسری طرف ان کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر دوآیات باہم متعارض ہوں تو وہ محل استدلال سے گرجاتی ہیں، پھر اس قاعدے کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ ﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ ”قرآن میں سے جو تمھیں آسان ہو،اسے (نماز میں)
پڑھو۔
“ (المزمل: 20: 73)
یہ آیت ایک دوسری آیت سے متعارض ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿٢٠٤﴾ ” جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی اختیار کرتے ہوئے اسے بغور سنو۔
“ (الاعراف204: 7)
ان دونوں آیات کا تعلق نماز سے ہے اور دونوں میں تعارض ہے،لہٰذا دونوں ساقط ہیں اور ان میں سے کسی کو بطور دلیل نہیں پیش کیا جاسکتا۔
(نورالأنوار،طبع مکتبہ رحمانیہ،لاھور،ص: 194،193.(بحث وقوع التعارض بين الحجج) (738/277)
صفحہ نمبر)
واضح رہے کہ فقہائے عراق نے مطلق قراءت کی فرضیت کے لیے سورۂ مزمل کی مذکورہ بالا آیت کو بطور دلیل پیش کیا اور فاتحہ خلف الامام سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے سورۂ اعراف کی مذکورہ آیت کو بطور ڈھال استعمال کیا، دوسری طرف ان دونوں آیات کو محل استدلال سے ساقط کر دکھایا۔
واضح رہے کہ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق اس میں کوئی اختلاف یا آیات میں باہمی تعارض نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٨٢﴾ ” اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔
“ (النسآء82: 4)
سرسری نظر سے دیکھنے سے جو اختلافات نظر آتے ہیں اس کی وجہ عدم رسوخ یا قرآن کریم کے جملہ مضامین پر پوری طرح مطلع نہ ہونا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 755
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:758
758. حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے فرمایا: میں اہل کوفہ کو (بعد از دوپہر) شام کی دونوں نمازیں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی طرح پڑھاتا تھا، یعنی ان میں کسی قسم کی کمی نہیں کرتا تھا۔ میں پہلی دو رکعات میں دیر لگاتا اور آخری دو رکعات میں تخفیف کرتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا بھی تمہارے متعلق یہی گمان تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:758]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ امام، منفرد اور مقتدی کے لیے نماز میں قراءت کی رکنیت وفرضیت کو ثابت کیا جائے، چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اپنی نماز کو رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ ہمیشہ ہی ہر رکعت میں قراءت کرتے تھے۔
اس سے فرضیت ثابت ہوتی ہے۔
اور پھر آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔
آپ کا یہ امرو جوب کےلیے ہے۔
ایک روایت میں صلاۃ عشاء کا ذکر ہے اور یہاں بعد از دوپہر شام کی دونوں نمازوں کا بیان ہے۔
صلاۃ عشاء سے امام بخاری ؒ کا مقصود ثابت نہیں ہوتا، اس لیے صلاۃ عشاء والی روایت کے راوی کا وہم ہے۔
واضح رہے کہ ابو داود طیالسی، مصنف عبدالرزاق اور صحیح ابی عوانہ میں بھی پچھلے پہر کی دو نمازوں کو ذکر کیا گیا ہے۔
والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 758
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:770
770. حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے فرمایا: اہل کوفہ نے آپ کے متعلق ہر معاملہ حتی کہ نماز کے متعلق بھی شکایت کی ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے جواب دیا: میں پہلی دو رکعات میں طوالت اور آخری دو رکعات میں اختصار کرتا ہوں۔ اور جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز کی اقتدا کی ہے کبھی اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: آپ نے سچ کہا۔ میرا بھی آپ کے متعلق یہی گمان تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:770]
حدیث حاشیہ:
(1)
پہلی دو رکعات میں قیام کے وقت سورۂ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت کو بھی ملایا جاتا ہے، اس لیے دوسری دو رکعات کے مقابلے میں پہلی دو رکعات طویل ہوں گی۔
دیگر روایات میں صلاۃ عشاء یا پچھلے وقت کی دو نمازوں (ظہر وعصر)
کے الفاظ ہیں، اس لیے امام بخاری ؒ نے انھی روایات کی طرف اشارہ کرکے اپنے مدعیٰ کو ثابت کیا ہے یا پھر ظہر اور عصر کے ساتھ عشاء کا الحاق کرکے اپنے موقف کو مضبوط کیا ہے، کیونکہ ان تینوں نمازوں کی چار چار رکعات ہوتی ہیں۔
(فتح الباري: 325/2) (2)
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح اور ظہر وعصر کی پہلی رکعت میں طوالت اختیار کرتے تھے۔
حضرت ابو قتادہ کہتے ہیں:
ہمارے گمان کے مطابق رسول اللہ ﷺ یہ چاہتے تھے کہ لوگوں کو پہلی رکعت مل جائے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 800،799)
اب بھی لوگوں کے لیے یہ سہولت ہونی چاہیے، یعنی اگر انھیں پہلی رکعت ملنے کی توقع ہوتو پہلی رکعت کو طویل کرنا بہتر ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 770