4416. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ تبوک کی طرف تشریف لے جانے لگے تو آپ نے مدینہ منورہ میں حضرت علی ؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ انہوں نے عرض کی: آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ میرے پاس تمہارا وہی درجہ ہو جو موسٰی ؑ کے ہاں ہارون ؑ کا تھا۔ صرف اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں ہو گا۔“ ابو داود نے اس حدیث کو ایک دوسری سند سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4416]
حدیث حاشیہ: 1۔
اس حدیث سے شیعہ حضرات نے حضرت علی ؓ کے لیے خلافت بلافصل کا استدلال کیا ہے جوکئی لحاظ سے محل نظر ہے۔
۔
حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے، اس لیے خلافت کا قیاس صحیح نہیں۔
۔
حضرت علی ؓ کو دنیوی معاملات اور گھریلو دیکھ بھال کے لیے جانشین نامزد کیا تھا جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں اور دیگر گھریلوخواتین کو بلا کرتلقین کی کہ علی کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔
۔
حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی خلافت پرتمام صحابہ کرام ؓ کا اجماع ہوا حتی کہ حضرت علی ؓ نے بھی بالآخر بیعت کرکے اس اجماع کوقبول کرلیا۔
۔
احادیث میں واضح طور پر ایسے ارشادات ملتے ہیں کہ آپ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ کا خلیفہ بننا آپ کی مرضی کے عین مطابق تھا۔
واللہ اعلم۔
2۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ آخری نبی ہیں۔
آپ کے بعد رسالت ونبوت کا دروازہ قیامت تک کے لیے بند ہوچکا ہے اب جو بھی کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا دجال ہے۔