حدثنا يحيى بن سعيد ، عن حجاج الصواف ، حدثني يحيى بن ابي كثير ، حدثني هلال بن ابي ميمونة ، عن عطاء بن يسار ، عن معاوية السلمي ، قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فعطس رجل من القوم، فقلت: يرحمك الله، فرماني القوم بابصارهم، فقلت: واثكل امياه، ما شانكم تنظرون إلي؟ قال: فجعلوا يضربون بايديهم على افخاذهم، فعرفت انهم يصمتوني، لكني سكت، فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة بابي هو وامي، ما شتمني ولا كهرني ولا ضربني، فقال: " إن هذه الصلاة لا يصلح فيها شيء من كلام الناس هذا، إنما هي التسبيح والتكبير وقراءة القرآن" ، او كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي هِلَالُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ السُّلَمِيِّ ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَ أُمِّيَاهْ، مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ؟ قَالَ: فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُمْ يُصْمِتُونِي، لَكِنِّي سَكَتُّ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ بِأَبِي هُوَ وَأُمِّي، مَا شَتَمَنِي وَلَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي، فَقَالَ: " إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ هَذَا، إِنَّمَا هِيَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ" ، أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
قلت: قلت: يا رسول الله، إنا قوم حديث عهد بجاهلية، وقد جاء الله بالإسلام، ومنا رجال ياتون الكهان! قال: " فلا تاتوهم"، قلت: ومنا رجال يتطيرون! قال:" فإن ذلك شيء يجدونه في صدورهم، فلا يصدنهم"، قلت: ومنا رجال يخطون! قال:" كان نبي من الانبياء يخط، فمن وافق خطه فذاك" .قُلْتُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا قَوْمٌ حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ، وَقَدْ جَاءَ اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ، وَمِنَّا رِجَالٌ يَأْتُونَ الْكُهَّانَ! قَالَ: " فَلَا تَأْتُوهُمْ"، قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَتَطَيَّرُونَ! قَالَ:" فَإِنَّ ذَلِكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ، فَلَا يَصُدَّنَّهُمْ"، قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَخُطُّونَ! قَالَ:" كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ" .
حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ نمازیوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی میں نے اسے " یرحمک اللہ " کہہ کر جواب دیا تو لوگ مجھے اپنی آنکھوں سے گھورنے لگے میں نے سٹپٹا کر کہا کیا مصیبت ہے؟ تم لوگ مجھے کیوں دیکھ رہے ہو؟ وہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرانے چاہتے ہیں تو میں خاموش ہوگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم " میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں " میں نے ان جیسا معلم پہلے دیکھا اور نہ ان سے بہتر تعلیم دینے والا ان کے بعد دیکھا " جب نماز سے فارغ ہوئے تو اللہ کی قسم انہوں نے مجھے ڈانٹا نہ ہی گالی دی اور نہ مارا پیٹا بلکہ فرمایا کہ اس نماز میں انسانوں کا کلام مناسب نہیں ہوتا نماز تو نام ہے تسبیح و تکبیر اور تلاوت قرآن کا یا جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جو کام کرتے تھے مثلاً ہم پرندوں سے شگون لیتے تھے (اس کا کیا حکم ہے؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارے ذہن کا ایک وہم ہوتا تھا اب یہ تمہیں کسی کام سے نہ روکے میں نے پوچھا یا رسول اللہ! مثلاً ہم میں سے بعض لوگ زمین پر لکیریں کھنچتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک نبی اس طرح لکیریں کھینچتے تھے سو جس کا خط اس کے موافق آجائے وہ صحیح ہوجاتا ہے۔
قال: قال: وبينما جارية لي ترعى غنيمات لي في قبل احد والجوانية، فاطلعت عليها اطلاعة، فإذا الذئب قد ذهب منها بشاة، وانا رجل من بني آدم ياسف كما ياسفون، لكني صككتها صكة، قال: فعظم ذلك على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: الا اعتقها، قال: " ابعث إليها"، قال: فارسل إليها فجاء بها، فقال:" اين الله؟"، قالت: في السماء، قال:" فمن انا؟"، قالت: انت رسول الله، قال:" اعتقها، فإنها مؤمنة" .قَالَ: قَالَ: وَبَيْنَمَا جَارِيَةٌ لِي تَرْعَى غُنَيْمَاتٍ لِي فِي قِبَلِ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ، فَاطَّلَعْتُ عَلَيْهَا اطِّلَاعَةً، فَإِذَا الذِّئْبُ قَدْ ذَهَبَ مِنْهَا بِشَاةٍ، وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ يَأْسَفُ كَمَا يَأْسَفُونَ، لَكِنِّي صَكَكْتُهَا صَكَّةً، قَالَ: فَعَظُمَ ذَلِكَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: أَلَا أُعْتِقُهَا، قَالَ: " ابْعَثْ إِلَيْهَا"، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَجَاءَ بِهَا، فَقَالَ:" أَيْنَ اللَّهُ؟"، قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ، قَالَ:" فَمَنْ أَنَا؟"، قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ:" أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ" .
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری ایک باندی تھی جو احد اور جوانیہ کے قرب میری بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن میں اس کے پاس گیا تو دیکھا کہ ایک بھیڑیا اس کے ریوڑ میں سے ایک بکری لے کر بھاگ گیا ہے میں بھی ایک انسان ہوں اور مجھے بھی عام لوگوں کی طرح افسوس ہوتا ہے چناچہ میں نے غصے میں آکر اسے ایک طمانچہ رسید کردیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے حوالے سے یہ بات بہت بوجھ بنی یہ دیکھ کر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں اسے آزاد نہ کر دوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے میرے پاس لے کر آؤ میں اسے لے کر آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا میں کون ہوں؟ اس نے کہا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے آزاد کردو کیونکہ یہ مؤمنہ ہے۔