حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني يزيد بن زياد ، عن محمد بن كعب القرظي ، قال: قال فتى منا من اهل الكوفة لحذيفة بن اليمان: يا ابا عبد الله، رايتم رسول الله صلى الله عليه وسلم وصحبتموه؟ قال: نعم يا ابن اخي، قال: فكيف كنتم تصنعون؟ قال: والله لقد كنا نجهد، قال: والله لو ادركناه ما تركناه يمشي على الارض، ولجعلناه على اعناقنا، قال: فقال حذيفة : يا ابن اخي، والله لقد رايتنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالخندق، وصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من الليل هويا، ثم التفت إلينا، فقال: " من رجل يقوم فينظر لنا ما فعل القوم يشترط له رسول الله صلى الله عليه وسلم انه يرجع، ادخله الله الجنة"، فما قام رجل، ثم صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم هويا من الليل، ثم التفت إلينا، فقال:" من رجل يقوم فينظر لنا ما فعل القوم، ثم يرجع يشرط له رسول الله صلى الله عليه وسلم الرجعة، اسال الله ان يكون رفيقي في الجنة"، فما قام رجل من القوم مع شدة الخوف وشدة الجوع وشدة البرد، فلما لم يقم احد دعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلم يكن لي بد من القيام حين دعاني، فقال:" يا حذيفة، فاذهب فادخل في القوم، فانظر ما يفعلون، ولا تحدثن شيئا حتى تاتينا"، قال: فذهبت فدخلت في القوم، والريح وجنود الله تفعل ما تفعل، لا تقر لهم قدر ولا نار ولا بناء، فقام ابو سفيان بن حرب، فقال: يا معشر قريش، لينظر امرؤ من جليسه، فقال حذيفة: فاخذت بيد الرجل الذي إلى جنبي، فقلت: من انت؟ قال: انا فلان بن فلان، ثم قال ابو سفيان: يا معشر قريش، إنكم والله ما اصبحتم بدار مقام، لقد هلك الكراع، واخلفتنا بنو قريظة، بلغنا منهم الذي نكره، ولقينا من هذه الريح ما ترون، والله ما تطمئن لنا قدر، ولا تقوم لنا نار، ولا يستمسك لنا بناء، فارتحلوا فإني مرتحل، ثم قام إلى جمله وهو معقول فجلس عليه، ثم ضربه فوثب على ثلاث، فما اطلق عقاله إلا وهو قائم، ولولا عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تحدث شيئا حتى تاتيني"، ولو شئت لقتلته بسهم، قال حذيفة: ثم رجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو قائم يصلي في مرط لبعض نسائه مرحل، فلما رآني ادخلني إلى رحله، وطرح علي طرف المرط، ثم ركع وسجد وإنه لفيه، فلما سلم اخبرته الخبر، وسمعت غطفان بما فعلت قريش، وانشمروا إلى بلادهم .حَدَّثَنَا يَعْقُوب ، حَدَّثَنَا أَبي ، عَنْ مُحَمَّدِ بنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بنُ زِيَادٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بنِ كَعْب الْقُرَظِيِّ ، قَالَ: قَالَ فَتًى مِنَّا مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ لِحُذَيْفَةَ بنِ الْيَمَانِ: يَا أَبا عَبدِ اللَّهِ، رَأَيْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَحِبتُمُوهُ؟ قَالَ: نَعَمْ يَا ابنَ أَخِي، قَالَ: فَكَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ؟ قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ كُنَّا نَجْهَدُ، قَالَ: وَاللَّهِ لَوْ أَدْرَكْنَاهُ مَا تَرَكْنَاهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ، وَلَجَعَلْنَاهُ عَلَى أَعْنَاقِنَا، قَالَ: فَقَالَ حُذَيْفَةُ : يَا ابنَ أَخِي، وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بالْخَنْدَقِ، وَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ هَوِيًّا، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: " مَنْ رَجُلٌ يَقُومُ فَيَنْظُرَ لَنَا مَا فَعَلَ الْقَوْمُ يَشْتَرِطُ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يَرْجِعُ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ"، فَمَا قَامَ رَجُلٌ، ثُمَّ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَوِيًّا مِنَ اللَّيْلِ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا، فَقَالَ:" مَنْ رَجُلٌ يَقُومُ فَيَنْظُرَ لَنَا مَا فَعَلَ الْقَوْمُ، ثُمَّ يَرْجِعُ يَشْرِطُ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجْعَةَ، أَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يَكُونَ رَفِيقِي فِي الْجَنَّةِ"، فَمَا قَامَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ مَعَ شِدَّةِ الْخَوْفِ وَشِدَّةِ الْجُوعِ وَشِدَّةِ الْبرْدِ، فَلَمَّا لَمْ يَقُمْ أَحَدٌ دَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُنْ لِي بدٌّ مِنَ الْقِيَامِ حِينَ دَعَانِي، فَقَالَ:" يَا حُذَيْفَةُ، فَاذْهَب فَادْخُلْ فِي الْقَوْمِ، فَانْظُرْ مَا يَفْعَلُونَ، وَلَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنَا"، قَالَ: فَذَهَبتُ فَدَخَلْتُ فِي الْقَوْمِ، وَالرِّيحُ وَجُنُودُ اللَّهِ تَفْعَلُ مَا تَفْعَلُ، لَا تَقِرُّ لَهُمْ قِدْرٌ وَلَا نَارٌ وَلَا بنَاءٌ، فَقَامَ أَبو سُفْيَانَ بنُ حَرْب، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، لِيَنْظُرْ امْرُؤٌ مَنْ جَلِيسُهُ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: فَأَخَذْتُ بيَدِ الرَّجُلِ الَّذِي إِلَى جَنْبي، فَقُلْتُ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا فُلَانُ بنُ فُلَانٍ، ثُمَّ قَالَ أَبو سُفْيَانَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، إِنَّكُمْ وَاللَّهِ مَا أَصْبحْتُمْ بدَارِ مُقَامٍ، لَقَدْ هَلَكَ الْكُرَاعُ، وَأَخْلَفَتْنَا بنُو قُرَيْظَةَ، بلَغَنَا مِنْهُمْ الَّذِي نَكْرَهُ، وَلَقِينَا مِنْ هَذِهِ الرِّيحِ مَا تَرَوْنَ، وَاللَّهِ مَا تَطْمَئِنُّ لَنَا قِدْرٌ، وَلَا تَقُومُ لَنَا نَارٌ، وَلَا يَسْتَمْسِكُ لَنَا بنَاءٌ، فَارْتَحِلُوا فَإِنِّي مُرْتَحِلٌ، ثُمَّ قَامَ إِلَى جَمَلِهِ وَهُوَ مَعْقُولٌ فَجَلَسَ عَلَيْهِ، ثُمَّ ضَرَبهُ فَوَثَب عَلَى ثَلَاثٍ، فَمَا أَطْلَقَ عِقَالَهُ إِلَّا وَهُوَ قَائِمٌ، وَلَوْلَا عَهْدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُحْدِثْ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي"، وَلَوْ شِئْتُ لَقَتَلْتُهُ بسَهْمٍ، قَالَ حُذَيْفَةُ: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي مِرْطٍ لِبعْضِ نِسَائِهِ مُرَحَّلٍ، فَلَمَّا رَآنِي أَدْخَلَنِي إِلَى رَحْلِهِ، وَطَرَحَ عَلَيَّ طَرَفَ الْمِرْطِ، ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ وَإِنَّهُ لَفِيهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ أَخْبرْتُهُ الْخَبرَ، وَسَمِعَتْ غَطَفَانُ بمَا فَعَلَتْ قُرَيْشٌ، وَانْشَمَرُوا إِلَى بلَادِهِمْ .
محمد بن کعب قرظی (رح) سے مروی ہے کہ ہم اہل کوفہ میں سے ایک نوجوان نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اے ابو عبداللہ! کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور شرف صحبت حاصل کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں بھتیجے! سائل نے پوچھا کہ آپ لوگ کیا کرتے تھے؟ فرمایا ہم اپنے آپ کو مشقت میں ڈال دیتے تھے سائل نے کہا بخدا! اگر ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پالیتے تو انہیں زمین پر نہ چلنے دیتے بلکہ اپنی گردنوں پر بٹھا لیتے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھتیجے! بخدا! ہم نے غزوہ خندق کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ دیکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی تاریکی میں عشاء کی نماز پڑھائی اور ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کون آدمی جا کر دشمنوں کے حالات کا جائزہ لے کر آئے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وعدہ کیا کہ اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا لیکن کوئی کھڑا نہ ہوا رات کا کچھ حصہ گذرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر وہی اعلان کیا اور اس مرتبہ فرمایا کہ وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا پھر بھی شدت خوف بھوک اور سردی کی شدت سے کوئی بھی کھڑا نہ ہوا۔
جب کوئی بھی کھڑا نہ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اس وقت میرے لئے کھڑے ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حذیفہ رضی اللہ عنہ تم جاؤ اور دیکھو کہ دشمن کے کیا حالات ہیں اور واپس ہمارے پاس آنے تک کوئی نیا کام نہ کرنا چناچہ میں چلا گیا اور دشمن کے لشکر میں گھس گیا جہاں ہوائیں اور اللہ کے لشکر اپنے کام کر رہے تھے اور ان کی کوئی ہنڈیا آگ اور خیمہ ٹھہر نہیں پا رہا تھا یہ دیکھ کر ابو سفیان بن حرب کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے گروہ قریش ہر آدمی دیکھ لے کہ اس کے ساتھ کون بیٹھا ہے؟ (کہیں کوئی جاسوس نہ ہو) اس پر میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک آدمی کا ہاتھ پکڑا اور اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس نے بتایا میں فلاں بن فلاں ہوں پھر ابو سفیان کہنے لگا اے گروہ قریش بخدا! اس جگہ تمہارے لئے مزید ٹھہرنا اب ممکن نہیں رہا مویشی ہلاک ہو رہے ہیں بنوقریظہ نے بھی ہم سے وعدہ خلافی کی ہے اور ہمیں ان کی طرف سے ناپسندیدہ حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس ہوا سے جو حالات پیدا ہوگئے ہیں وہ تم دیکھ ہی رہے ہو کہ کوئی ہانڈی ٹھہر نہیں پا رہی آگ جل نہیں رہی اور خیمے اپنے جگہ کھڑے نہیں رہے پا رہے اس لئے میری رائے تو یہ ہے کہ تم لوگ واپس روانہ ہوجاؤ اور میں تو واپس جا رہا ہو،
یہ کہہ کر اپنے گھوڑے کی طرف چل پڑا جو رسی سے باندھا گیا تھا اور اس پر سوار ہو کر ایڑ لگا دی وہ تین مرتبہ اچھلا لیکن جب اس نے رسی چھوڑی تو وہ کھڑا ہوگیا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت نہ کی ہوتی کہ کوئی نیا کام نہ کرنا جب تک میرے پاس واپس نہ آجاؤ پھر میں چاہتا تو اپنا تیر مار کر اسے قتل کرسکتا تھا، پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس روانہ ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنی کسی زوجہ محترمہ کی بالوں سے بنی ہوئی چادر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے مجھے دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خیمے میں ہی بلا لیا اور چادر کا ایک کونا مجھ پر ڈال دیا پھر رکوع اور سجدہ کیا جب کہ میں خیمے ہی میں رہا جب سلام پھیر چکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری بات بتادی اور بنو غطفان کو جب پتہ چلا کہ قریش نے کیا کیا ہے تو وہ اپنے علاقے میں ہی واپس لوٹ گئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن لو لا إرساله، محمد بن كعب لم يدرك حذيفة