حدثنا يونس ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، عن عاصم بن بهدلة ، عن زر بن حبيش ، عن حذيفة بن اليمان ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " اتيت بالبراق وهو دابة ابيض طويل، يضع حافره عند منتهى طرفه، فلم نزايل ظهره انا وجبريل عليه السلام حتى اتيت بيت المقدس، ففتحت لنا ابواب السماء ورايت الجنة والنار" . قال حذيفة بن اليمان: ولم يصل في بيت المقدس، قال زر: فقلت له: بلى، قد صلى، قال حذيفة: ما اسمك يا اصلع؟ فإني اعرف وجهك، ولا اعرف اسمك؟ فقلت: انا زر بن حبيش، قال: وما يدريك انه قد صلى؟ قال: فقلت: يقول الله عز وجل: سبحان الذي اسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الاقصى الذي باركنا حوله لنريه من آياتنا إنه هو السميع البصير سورة الإسراء آية 1، فقال: هل تجده صلى؟ لو صلى لصليتم فيه كما تصلون في المسجد الحرام، قال زر: وربط الدابة بالحلقة التي يربط بها الانبياء عليهم السلام، فقال حذيفة: او كان يخاف ان تذهب منه وقد آتاه الله بها؟..حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابنَ سَلَمَةَ ، عَنْ عَاصِمِ بنِ بهْدَلَةَ ، عَنْ زِرِّ بنِ حُبيْشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ بنِ الْيَمَانِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أُتِيتُ بالْبرَاقِ وَهُوَ دَابةٌ أَبيَضُ طَوِيلٌ، يَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهِ، فَلَمْ نُزَايِلْ ظَهْرَهُ أَنَا وَجِبرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام حَتَّى أَتَيْتُ بيْتَ الْمَقْدِسِ، فَفُتِحَتْ لَنَا أَبوَاب السَّمَاءِ وَرَأَيْتُ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ" . قَالَ حُذَيْفَةُ بنُ الْيَمَانِ: وَلَمْ يُصَلِّ فِي بيْتِ الْمَقْدِسِ، قَالَ زِرٌّ: فَقُلْتُ لَهُ: بلَى، قَدْ صَلَّى، قَالَ حُذَيْفَةُ: مَا اسْمُكَ يَا أَصْلَعُ؟ فَإِنِّي أَعْرِفُ وَجْهَكَ، وَلَا أَعْرِفُ اسْمَكَ؟ فَقُلْتُ: أَنَا زِرُّ بنُ حُبيْشٍ، قَالَ: وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهُ قَدْ صَلَّى؟ قَالَ: فَقُلْتُ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ سورة الإسراء آية 1، فقَالَ: َهَلْ تَجِدُهُ صَلَّى؟ لَوْ صَلَّى لَصَلَّيْتُمْ فِيهِ كَمَا تُصَلُّونَ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، قَالَ زِرٌّ: وَرَبطَ الدَّابةَ بالْحَلَقَةِ الَّتِي يَرْبطُ بهَا الْأَنْبيَاءُ عَلَيْهِمْ السَّلَام، فقَالَ حُذَيْفَةُ: أَو َكَانَ يَخَافُ أَنْ تَذْهَب مِنْهُ وَقَدْ آتَاهُ اللَّهُ بهَا؟..
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ شب معراج کا واقعہ بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ذکر کرنے لگے کہ پھر ہم وہاں سے چل کر بیت المقدس پہنچے لیکن بیت المقدس میں داخل نہیں ہوئے " میں نے کہا کہ اس رات تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس میں داخل بھی ہوئے تھے اور وہاں پر نماز پھی پڑھی تھی یہ سن کر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے گنجے! تمہارا کیا نام ہے؟ میں تمہیں چہرے سے پہچاتا ہوں لیکن نام یاد نہیں ہے میں نے عرض کیا کہ میرا نام زر بن حبیش ہے انہوں نے فرمایا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اس رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز پڑھی تھی؟ میں نے کہا کہ قرآن بتاتا ہے انہوں نے فرمایا کہ قرآن سے بات کرنے والا کامیاب ہوتا ہے تم وہ آیت پڑھ کر سناؤ اب جو میں نے " سبحان الذی اسری بعبدہ " پڑھی تو اس میں یہ کہیں نہ ملا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات بیت المقدس میں نماز بھی پڑھی تھی، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے ارے گنجے! کیا تمہیں اس میں نماز پڑھنے کا ذکر ملتا ہے؟ میں نے کہا نہیں انہوں نے فرمایا بخدا! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات بیت المقدس میں نماز نہیں پڑھی تھی اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس میں نماز پڑھ لیتے تو تم پر بھی وہاں نماز پڑھنا فرض ہوجاتا جیسے بیت اللہ میں ہوا بخدا! وہ دونوں براق سے جدا نہیں ہوئے تاآنکہ ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے۔پھر ان دونوں نے جنت اور جہنم کو دیکھا اور آخرت کے سارے وعدہ دیکھے پھر وہ دونوں اسی طرح واپس آگئے جیسے گئے تھے پھر وہ ہنسنے لگے یہاں تک کہ ان کے دندان مبارک میں نے دیکھے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا لوگ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے براق کو باندھ دیا تھا تاکہ وہ بھاگ نہ جائے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو سارا عالم غیب و شہود ان کے تابع کردیا تھا۔