حدثنا حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا ابن هبيرة ، انه سمع ابا تميم الجيشاني ، يقول: اخبرني سعيد ، انه سمع حذيفة بن اليمان ، يقول: غاب عنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فلم يخرج حتى ظننا انه لن يخرج، فلما خرج سجد سجدة، فظننا ان نفسه قد قبضت فيها، فلما رفع راسه، قال: " إن ربي تبارك وتعالى استشارني في امتي ماذا افعل بهم؟ فقلت: ما شئت اي رب هم خلقك وعبادك، فاستشارني الثانية، فقلت له كذلك، فقال: لا احزنك في امتك يا محمد، وبشرني ان اول من يدخل الجنة من امتي سبعون الفا، مع كل الف سبعون الفا، ليس عليهم حساب، ثم ارسل إلي، فقال: ادع تجب، وسل تعط، فقلت لرسوله: اومعطي ربي سؤلي؟ فقال: ما ارسلني إليك إلا ليعطيك، ولقد اعطاني ربي عز وجل ولا فخر، وغفر لي ما تقدم من ذنبي وما تاخر، وانا امشي حيا صحيحا، واعطاني ان لا تجوع امتي ولا تغلب، واعطاني الكوثر، فهو نهر من الجنة يسيل في حوضي، واعطاني العز والنصر والرعب يسعى بين يدي امتي شهرا، واعطاني اني اول الانبياء ادخل الجنة، وطيب لي ولامتي الغنيمة، واحل لنا كثيرا مما شدد على من قبلنا، ولم يجعل علينا من حرج" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا ابنُ هُبيْرَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبا تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيَّ ، يَقُولُ: أَخْبرَنِي سَعِيدٌ ، أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بنَ الْيَمَانِ ، يَقُولُ: غَاب عَنَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَلَمْ يَخْرُجْ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ لَنْ يَخْرُجَ، فَلَمَّا خَرَجَ سَجَدَ سَجْدَةً، فَظَنَنَّا أَنَّ نَفْسَهُ قَدْ قُبضَتْ فِيهَا، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ، قَالَ: " إِنَّ رَبي تَبارَكَ وَتَعَالَى اسْتَشَارَنِي فِي أُمَّتِي مَاذَا أَفْعَلُ بهِمْ؟ فَقُلْتُ: مَا شِئْتَ أَيْ رَب هُمْ خَلْقُكَ وَعِبادُكَ، فَاسْتَشَارَنِي الثَّانِيَةَ، فَقُلْتُ لَهُ كَذَلِكَ، فَقَالَ: لَا أُحْزِنُكَ فِي أُمَّتِكَ يَا مُحَمَّدُ، وَبشَّرَنِي أَنَّ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبعُونَ أَلْفًا، مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبعُونَ أَلْفًا، لَيْسَ عَلَيْهِمْ حِسَاب، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيَّ، فَقَالَ: ادْعُ تُجَب، وَسَلْ تُعْطَ، فَقُلْتُ لِرَسُولِهِ: أَوَمُعْطِيَّ رَبي سُؤْلِي؟ فَقَالَ: مَا أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ إِلَّا لِيُعْطِيَكَ، وَلَقَدْ أَعْطَانِي رَبي عَزَّ وَجَلَّ وَلَا فَخْرَ، وَغَفَرَ لِي مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبي وَمَا تَأَخَّرَ، وَأَنَا أَمْشِي حَيًّا صَحِيحًا، وَأَعْطَانِي أَنْ لَا تَجُوعَ أُمَّتِي وَلَا تُغْلَب، وَأَعْطَانِي الْكَوْثَرَ، فَهُوَ نَهْرٌ مِنَ الْجَنَّةِ يَسِيلُ فِي حَوْضِي، وَأَعْطَانِي الْعِزَّ وَالنَّصْرَ وَالرُّعْب يَسْعَى بيْنَ يَدَيْ أُمَّتِي شَهْرًا، وَأَعْطَانِي أَنِّي أَوَّلُ الْأَنْبيَاءِ أَدْخُلُ الْجَنَّةَ، وَطَيَّب لِي وَلِأُمَّتِي الْغَنِيمَةَ، وَأَحَلَّ لَنَا كَثِيرًا مِمَّا شَدَّدَ عَلَى مَنْ قَبلَنَا، وَلَمْ يَجْعَلْ عَلَيْنَا مِنْ حَرَجٍ" .
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں ہی رہے باہر تشریف نہیں لائے اور ہم یہ سمجھنے لگے کہ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نہیں آئیں گے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے تو اتنا طویل سجدہ کیا کہ ہمیں اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح ہی پرواز نہ کرگئی ہو جب سر اٹھایا تو فرمانے لگے کہ میرے رب نے میری امت کے متعلق مجھ سے مشورہ کیا کہ میں ان کے ساتھ کیا سلوک کروں؟ میں نے عرض کیا کہ پروردگار! آپ جو چاہیں وہ آپ کی مخلوق اور آپ کے بندے ہیں پھر دوبارہ مشورہ کیا اور اس نے مجھے بشارت دی کہ میرے ساتھ امت میں سب سے پہلے ستر ہزار افراد جنت میں داخل ہوں گے اور ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار مزید ہوں گے جن کا کوئی حساب کتاب نہ ہوگا۔
پھر میرے پروردگار نے میرے پاس یہ پیغام بھیجا کہ آپ دعاء کیجئے آپ کی دعاء قبول کی جائے گی سوال کیجئے آپ کو عطا کیا جائے گا میں نے قاصد سے پوچھا کہ کیا میرا پروردگار میری درخواست پر مجھے عطا کرے گا؟ قاصد نے جواب دیا کہ اس نے مجھے آپ کے پاس دینے کے ارادے ہی سے بھیجا ہے پھر میرے پروردگار نے مجھے عطاء فرمایا اور میں اس پر فخر نہیں کرتا اس نے میرے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیئے جبکہ میں زندہ سلامت چل رہا ہوں اس نے میری یہ درخواست قبول کرلی کہ میری امت قحط سالی سے ہلاک نہ ہوگی اور ان پر کوئی غالب نہ آئے گا نیز اس نے مجھے حوض کوثر عطا فرمایا جو کہ جنت کی ایک نہر ہے اور میرے حوض میں آکر گرتی ہے نیز اس نے مجھے عزت، مدد اور رعب عطا فرمایا جو میری امت سے آگے ایک ماہ کی مسافت پر دوڑتا ہے نیز اس نے مجھے یہ سعادت عطا فرمائی کہ جنت میں داخل ہونے والا سب سے پہلا نبی میں ہوں گا میرے اور میری امت کے لئے مال غنیمت کو حلال کردیا اور بہت سے وہ سخت احکام جو ہم سے پہلے لوگوں پر تھے انہیں ہم پر حلال کردیا اور ہم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة ضعيف، وسعيد الراوي عن حذيفة لم نتبينه