حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن عمرو بن سلمة ، قال: كنا على حاضر، فكان الركبان , وقال إسماعيل مرة: الناس يمرون بنا راجعين من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فادنو منهم فاسمع، حتى حفظت قرآنا، وكان الناس ينتظرون بإسلامهم فتح مكة، فلما فتحت، جعل الرجل ياتيه فيقول: يا رسول الله، انا وافد بني فلان، وجئتك بإسلامهم , فانطلق ابي بإسلام قومه، فرجع إليهم، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قدموا اكثركم قرآنا" , قال: فنظروا وانا لعلى حواء عظيم، فما وجدوا فيهم احدا اكثر قرآنا مني، فقدموني وانا غلام، فصليت بهم وعلي بردة، وكنت إذا ركعت او سجدت قلصت فتبدو عورتي، فلما صلينا تقول عجوز لنا دهرية غطوا عنا است قارئكم! قال: فقطعوا لي قميصا، فذكر انه فرح به فرحا شديدا .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلِمَةَ ، قَالَ: كُنَّا عَلَى حَاضِرٍ، فَكَانَ الرُّكْبَانُ , وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ مَرَّةً: النَّاسُ يَمُرُّونَ بِنَا رَاجِعِينَ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَدْنُو مِنْهُمْ فَأَسْمَعُ، حَتَّى حَفِظْتُ قُرْآنًا، وَكَانَ النَّاسُ يَنْتَظِرُونَ بِإِسْلَامِهِمْ فَتْحَ مَكَّةَ، فَلَمَّا فُتِحَتْ، جَعَلَ الرَّجُلُ يَأْتِيهِ فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا وَافِدُ بَنِي فُلَانٍ، وَجِئْتُكَ بِإِسْلَامِهِمْ , فَانْطَلَقَ أَبِي بِإِسْلَامِ قَوْمِهِ، فَرَجَعَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدِّمُوا أَكْثَرَكُمْ قُرْآنًا" , قَالَ: فَنَظَرُوا وَأَنَا لَعَلَى حِوَاءٍ عَظِيمٍ، فَمَا وَجَدُوا فِيهِمْ أَحَدًا أَكْثَرَ قُرْآنًا مِنِّي، فَقَدَّمُونِي وَأَنَا غُلَامٌ، فَصَلَّيْتُ بِهِمْ وَعَلَيَّ بُرْدَةٌ، وَكُنْتُ إِذَا رَكَعْتُ أَوْ سَجَدْتُ قَلَصَتْ فَتَبْدُو عَوْرَتِي، فَلَمَّا صَلَّيْنَا تَقُولُ عَجُوزٌ لَنَا دَهْرِيَّةٌ غَطُّوا عَنَّا اسْتَ قَارِئِكُمْ! قَالَ: فَقَطَعُوا لِي قَمِيصًا، فَذَكَرَ أَنَّهُ فَرِحَ بِهِ فَرَحًا شَدِيدًا .
حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ شہر میں رہتے تھے جب لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آتے تو ہمارے یہاں سے ہو کر گذرتے تھے میں ان کے قریب جاتا اور ان کی باتیں سنتا یہاں تک کہ میں نے قرآن کا کچھ حصہ بھی یاد کرلیا لوگ فتح مکہ کا انتظار کررہے تھے تاکہ اسلام قبول کریں چنانچہ جب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا تو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے لگے وہ کہتے تھے کہ یا رسول اللہ میں فلاں قبیلے کا نمائندہ ہوں اور ان کے قبول اسلام کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ میرے والد صاحب بھی اپنی قوم کے اسلام کا پیغام لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تھے اور وہ واپس آنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امامت کے لئے اس شخص کو آگے کرنا جو سب سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہو میں اس وقت قریب قریب بہت سے گھروں کے محلے میں رہتا تھا لوگوں نے غور کیا تو انہیں مجھ سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا کوئی آدمی نہ مل سکا چنانچہ انہوں نے نوعمر ہونے کے باوجود مجھ ہی کو آگے کردیا۔ اور میں انہیں نماز پڑھانے لگا میرے جسم پر ایک چادر ہوتی تھی میں جب رکوع یا سجدے میں جاتا تو وہ چھوٹی پڑجاتی اور میرا ستر کھل جاتایہ دیکھ کر ایک بوڑھی خاتون لوگوں سے کہنے لگی کہ اپنے امام صاحب کا ستر تو چھپاؤ چنانچہ لوگوں نے میرے لئے ایک قمیض تیار کی جسے پاکر مجھے بہت خوشی ہوئی۔