عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كتب الله مقادير الخلائق قبل ان يخلق السموات والارض بخمسين الف سنة» قال: «وكان عرشه على الماء» . رواه مسلم عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَتَبَ اللَّهُ مقادير الْخَلَائق قبل أَن يخلق السَّمَوَات وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ» قَالَ: «وَكَانَ عَرْشُهُ على المَاء» . رَوَاهُ مُسلم
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیر لکھی، اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ “ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (16 /2653) [والخطيب في تاريخ بغداد (2/ 252)]»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 79
تخریج الحدیث: [صحيح مسلم 6748] ◄ اس حدیث کو امام مسلم کے علاوہ امام عبداللہ بن وہب المصری [كتاب الجامع: 580، كتاب القدر: 17] جعفر بن محمد الفریابی [كتاب القدر: 84] ترمذی [السنن: 2156 وقال: حسن صحيح غريب] أحمد [2؍169 ح6579] عبد بن حمید [المنتخب: 343] ابن حبان [الاحسان: 6105، دوسرا نسخه: 6138] محمد بن الحسین الآجری [الشريعته ص176ح341۔ 343] اور بیہقی [كتاب القضاءوالقدر: 128، كتاب الاسماء والصفات ص 375، 374دوسرا نسخه ص477كتاب الاعتقادص 136] وغیرہم نے ابوہانی حمید بن ہانی عن ابی عبدالرحمٰن الحبلی عن عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت کیا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن عبداللہ بن یزید الحبلی ثقہ ہیں۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب: 3712] ◄ حمید بن ہانی ثقہ و صدوق ہیں۔ انہیں دارقطنی [سوالات البرقاني: 95] ابن حبان [149/4] اور ابن شاہین [الثقات: 275] نے ثقہ قرار دیا ہے۔ امام مسلم وغیرہ نے تصحیح کے ذریعے سے ان کی توثیق کی ہے، لہٰذا یہ روایت بالکل صحیح ہے۔ «والحمدلله»
فقہ الحدیث: ➊ مقدار کی جمع مقادیر ہے۔ مقدار کا مطلب ہے ”عدد پیمائش، ناپ تول اور سائز میں مماثل شے، درجہ، حیثیت، تقدیر فیصلہ الہٰی“ دیکھئے: القاموس الوحید [ص1283] ➋ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ تقدیر برحق ہے اور یہی اہل سنت والجماعة کا عقیدہ ہے۔ ◈ حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں: «ومذهب السلف قاطبة أن الأمور كلها بتقدير الله تعاليٰ» ”اور تمام (سلف صالحین) کا مذہب یہی ہے کہ تمام امور اللہ کی تقدیر سے ہیں۔“[فتح الباري 11؍478 تحت ح6594] ارشاد باری تعالیٰ ہے: «إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ» ”بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقدار سے پیدا کیا ہے۔“[القمر: 49] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مشرکین قریش نے تقدیر کے بارے میں جھگڑا کیا تو یہ (درج بالا) آیت نازل ہوئی۔ [صحیح مسلم: 2656، دار السلام: 6752] اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَاللَّـهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ» ”اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور جو تم کام کرتے ہو۔“[الصٰفٰت: 96] اس آیت کی تشریح میں امام بخاری فرماتے ہیں: ”پس اللہ نے خبر دی کہ تمام اعمال اور اعمال والے مخلوق ہیں۔“[خلق افعال العباد ص25 ح117] تقدیر پر دیگر آیات کے لئے دیکھئے کتاب [الشريعة للآجري ص150 تا 172] متواتر المعنیٰ احادیث سے عقیدہ تقدیر ثابت ہے۔ ◈ امام مالک فرماتے ہیں: «ما أضل من كذب بالقدر، لو لم يكن عليهم فيه حجة إلا قوله تعالىٰ: ﴿خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ﴾ لكفيٰ بها حجة» ”تقدیر کا انکار کرنے والے سے زیادہ کوئی گمراہ نہیں ہے، اگر تقدیر کے بارے میں صرف یہی ارشاد باری تعالیٰ دلیل ہوتا کہ اس نے تمہیں پیدا کیا، پس تم میں سے بعض کافر ہیں اور بعض مومن ہیں۔ [التغابن: 2] تو کافی تھا۔“[كتاب القدر للفريابي: 290 وسنده صحيح، الشريعة للآجري ص226، 227 ح508 وسنده صحيح] ◈ طاؤس تابعی فرماتے ہیں: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک جماعت کو پایا ہے، وہ کہتے تھے: ہر چیز تقدیر سے ہے۔“[صحيح مسلم: 2655 وترقيم دارالسلام: 6751] ◈ امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ابوسہیل بن مالک سے پوچھا: تقدیر کے ان منکروں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا: میری یہ رائے ہے کہ انہیں توبہ کرائی جائے، اگر وہ توبہ کر لیں (تو ٹھیک ہے) ورنہ انہیں تہ تیغ کر دینا چاہئے۔ عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا: میری (بھی) یہی رائے ہے۔ [موطأ امام مالك 2؍900 ح1730 وسنده صحيح] ◈ قدریہ (تقدیر کے منکرین) کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں، (اللہ کی) قسم، اگر وہ احد پہاڑ کے برابر (بھی) سونا خرچ کر دیں تو تقدیر پر ایمان لائے بغیر (اللہ کے ہاں) قبول نہیں ہوتا۔ [صحيح مسلم: 8، دارالسلام: 93] ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک بدعتی نے سلام بھیجا تو انہوں نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ دیکھئے: [سنن الترمذي: 2152 وسنده حسن وقال الترمذي: ”هٰذا حديث حسن صحيح غريب“] ◈ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: «العجز والكيس من القدر» ”کمزوری اور ذہانت تقدیر سے ہے۔“[الشريعة للآجري ص213 ح448 وسنده صحيح] اس طرح کے اور بھی بہت سے آثار ہیں جن سے تقدیر کا عقیدہ صاف ثابت ہوتا ہے۔ ◈ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: «من كفر بالقدر فقد كفر بالإسلام» ”جس نے تقدیر کا انکار کیا تو اس نے اسلام کا انکار کیا۔“[الشريعه ص217 ح462 وسنده صحيح] ◈ قاسم بن محمد بن ابی بکر اور سالم بن عبداللہ بن عمر دونوں قدریہ فرقے والوں پر لعنت بھیجتے تھے۔ [الشريعة ص223 ح492 وسنده صحيح] ◈ امام لیث بن سعد المصری نے تقدیر کے منکر کے بارے میں فرمایا کہ نہ اس کی بیمار پرسی کی جائے اور نہ اس کے جنازے میں شامل ہوں۔ [الشريعة للآجري ص227 ح509 وسنده صحيح] ➌ امام یحییٰ بن سعید القطان اور امام عبدالرحمٰن بن مہدی رحمہما اللہ نے فرمایا: «كل شيء بقدر» میں «بقدر» کا معنیٰ ”کتب وعلم“ ہے یعنی لکھا اور اسے علم ہے۔ [كتاب القدر للفريابي: 411 وسنده صحيح] ➍ امام اہل سنت ابوعبداللہ أحمد بن حنبل نے فرمایا: «لا يصلي خلف القدرية والمعتزلة والجهمية» ”قدریہ، معتزلہ اور جہمیہ (گمراہ فرقے والوں) کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔“[كتاب السنه لعبدالله بن أحمد: 833 وسنده صحيح] ➎ فضل بن عیسیٰ الرقاشی نامی ایک قدری بدعتی شخص تھا، جس کے بارے میں امام ایوب السختیانی رحمہ اللہ نے فرمایا: «لو ولد أخرس كان خيرا له»”اگر وہ گونگا پیدا ہوتا تو اس کے لئے بہتر تھا۔“[كتاب الضعفاء للبخاري: 306 وسنده صحيح، الجرح والتعديل 7؍64 وسنده صحيح] یہ رقاشی ایک دن محمد بن کعب القرظی (تابعی) کے پاس آ کر تقدیر کے بارے میں کلام کرنے لگا تو امام قرظی نے اس سے کہا: (خطبے والا) تشہد پڑھ، جب وہ «من يهده الله فلامضل له ومن يضلل فلا هادي له» تک پہنچا تو انہوں نے اپنی لاٹھی اٹھا کر رقاشی کے سر پر ماری اور فرمایا: اٹھ جا (دفع ہو جا) پھر جب وہ چلا گیا تو آپ نے (اپنی بصیرت اور تجربے سے) فرمایا: یہ آدمی اپنی رائے سے کبھی رجوع نہیں کرے گا۔ [السنة لعبدالله بن أحمد: 962 وسنده صحيح] ➏ تقدیر کے بارے میں شیخ عبدالمحسن العباد المدنی نے بہترین بحث کی ہے، جس کا ترجمہ راقم الحروف نے کیا ہے اور وہ ”شرح حدیث جبریل“ کے نام سے چھپ چکا ہے۔