سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کہ صادق و مصدوق ہیں، فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کی تخلیق اس کی ماں کے پیٹ میں اس طرح مکمل کی جاتی ہے کہ وہ چالیس روز تک نطفہ رہتا ہے، پھر اتنی مدت جما ہوا خون رہتا ہے۔ پھر اتنی ہی مدت گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے، پھر اللہ چار باتیں لکھنے کے لیے اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے، پس وہ اس کا عمل، اس کی عمر، اس کا رزق اور اس کا بد نصیب یا سعادت مند ہونا لکھتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ پس اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، بے شک تم میں سے کوئی شخص اہل جنت کے سے عمل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے مابین صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو وہ نوشتہ تقدیر اس پر غالب آ جاتا ہے تو وہ جہنمیوں کا سا کوئی عمل کر بیٹھتا ہے تو وہ اس میں داخل ہو جاتا ہے، اور (اسی طرح) تم میں سے کوئی جہنمیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو وہ نوشتہ تقدیر اس پر غالب آ جاتا ہے اور وہ اہل جنت کا سا عمل کر لیتا ہے تو وہ اس میں داخل ہو جاتا ہے۔ “ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
● صحيح البخاري | 7454 | عبد الله بن مسعود | خلق أحدكم يجمع في بطن أمه أربعين يوما أو أربعين ليلة ثم يكون علقة مثله ثم يكون مضغة مثله ثم يبعث إليه الملك فيؤذن بأربع كلمات فيكتب رزقه وأجله وعمله وشقي أم سعيد ثم ينفخ فيه الروح أحدكم ليعمل بعمل أهل الجنة حتى لا يكون بينها وبينه إلا ذراع فيسبق عليه ال |
● صحيح البخاري | 3208 | عبد الله بن مسعود | أحدكم يجمع خلقه في بطن أمه أربعين يوما ثم يكون علقة مثل ذلك ثم يكون مضغة مثل ذلك ثم يبعث الله ملكا فيؤمر بأربع كلمات ويقال له اكتب عمله ورزقه وأجله وشقي أو سعيد ثم ينفخ فيه الروح الرجل منكم ليعمل حتى ما يكون بينه وبين الجنة إلا ذراع فيسبق عليه |
● صحيح البخاري | 3332 | عبد الله بن مسعود | أحدكم يجمع في بطن أمه أربعين يوما ثم يكون علقة مثل ذلك ثم يكون مضغة مثل ذلك ثم يبعث الله إليه ملكا بأربع كلمات فيكتب عمله وأجله ورزقه وشقي أو سعيد ثم ينفخ فيه الروح الرجل ليعمل بعمل أهل ا لنار حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع فيسبق عليه الكتاب |
● صحيح البخاري | 6594 | عبد الله بن مسعود | أحدكم يجمع في بطن أمه أربعين يوما ثم علقة مثل ذلك ثم يكون مضغة مثل ذلك ثم يبعث الله ملكا فيؤمر بأربع برزقه وأجله وشقي أو سعيد أحدكم أو الرجل يعمل بعمل أهل النار حتى ما يكون بينه وبينها غير باع أو ذراع فيسبق عليه الكتاب فيعمل بعمل أهل الجنة |
● صحيح مسلم | 6723 | عبد الله بن مسعود | أحدكم يجمع خلقه في بطن أمه أربعين يوما ثم يكون في ذلك علقة مثل ذلك ثم يكون في ذلك مضغة مثل ذلك ثم يرسل الملك فينفخ فيه الروح ويؤمر بأربع كلمات بكتب رزقه وأجله وعمله وشقي أو سعيد فوالذي لا إله غيره إن أحدكم ليعمل بعمل أهل الجنة حتى ما يكون بينه وبينها إلا |
● جامع الترمذي | 2137 | عبد الله بن مسعود | أحدكم يجمع خلقه في بطن أمه في أربعين يوما ثم يكون علقة مثل ذلك ثم يكون مضغة مثل ذلك ثم يرسل الله إليه الملك فينفخ فيه الروح ويؤمر بأربع يكتب رزقه وأجله وعمله وشقي أو سعيد أحدكم ليعمل بعمل أهل الجنة حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع |
● سنن أبي داود | 4708 | عبد الله بن مسعود | خلق أحدكم يجمع في بطن أمه أربعين يوما ثم يكون علقة مثل ذلك ثم يكون مضغة مثل ذلك ثم يبعث إليه ملك فيؤمر بأربع كلمات فيكتب رزقه وأجله وعمله ثم يكتب شقي أو سعيد ثم ينفخ فيه الروح أحدكم ليعمل بعمل أهل الجنة حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع أو قيد ذراع |
● سنن ابن ماجه | 76 | عبد الله بن مسعود | اكتب عمله وأجله ورزقه وشقي أم سعيد أحدكم ليعمل بعمل أهل الجنة حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع فيسبق عليه الكتاب فيعمل بعمل أهل النار فيدخلها وإن أحدكم ليعمل بعمل أهل النار حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع فيسبق عليه الكتاب |
● المعجم الصغير للطبراني | 16 | عبد الله بن مسعود | النطفة إذا استقرت في الرحم تكون نطفة أربعين ليلة ثم تكون علقة أربعين ليلة ثم تكون مضغة أربعين ليلة ثم تكون عظاما أربعين ليلة ثم يكسو الله العظام لحما فيقول الملك أي رب ذكرا أو أنثى فيقضي الله ويكتب الملك ثم يقول أي رب شقي أو سعيد فيقضي الله |
● المعجم الصغير للطبراني | 19 | عبد الله بن مسعود | خلق أحدكم يجمع في بطن أمه أربعين يوما ثم يكون علقة مثل ذلك ثم يكون مضغة مثل ذلك ثم يأتي الملك فيكتب شقي أو سعيد ذكر أو أنثى |
● مشكوة المصابيح | 82 | عبد الله بن مسعود | إن احدكم يجمع خلقه في بطن امه اربعين يوما ثم يكون في ذلك علقة مثل ذلك ثم يكون في ذلك مضغة مثل ذلك ثم يرسل الملك فينفخ فيه الروح |
● مسندالحميدي | 126 | عبد الله بن مسعود | |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 82
تخریج:
[صحيح بخاري 6594]،
[صحيح مسلم 6723]
فقہ الحدیث:
➊ عقیدہ تقدیر برحق ہے۔
➋ کون خوش قسمت ہے اور کون بدقسمت؟ یہ سب اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے اور اس نے اپنے علم سے، اسے تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔
➌ سچی توبہ کرنے سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں، لہٰذا کسی توبہ کرنے والے شخص کو سابقہ گناہوں اور غلطیوں پر ملامت نہیں کرنا چاہئیے۔
➍ کفریہ عقائد و اعمال انسان کو جہنم کی طرف لے جاتے ہیں اور اللہ کے فضل و کرم سے اسلامی عقائد و اعمال انسان کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
➎ جن عقائد و اعمال پر خاتمہ ہوتا ہے اسی کا اعتبار ہے، لہٰذا ہر وقت اللہ تعالیٰ سے خاتمہ بالخیر کی دعا مانگنی چاہئیے۔
➏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر بات میں سچے اور امین تھے، چاہے نبوت سے پہلے کی زندگی تھی یا بعد کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین بھی آپ کو سچا اور امین مانتے تھے۔
➐ جدید طبی تحقیقات نے اس حدیث کی تصدیق کر دی ہے، جس سے اہل ایمان کا ایمان اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ «والحمد لله عليٰ كل حال»
➑ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ چار ماہ کے بعد بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ اگر پانچ ماہ یا زیادہ مدت والا بچہ مردہ پیدا ہو جائے یا پیدا ہوتے ہی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«والسقط يصلي عليه ويدعيٰ لوالديه بالمغفرة والرحمة»
”اور «سقط» (ناتمام بچہ جو اپنی میعاد سے پہلے گر جائے) کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے والدین کے لئے مغفرت و رحمت کی دعا کی جائے گی۔“ [سنن ابي داود: 3180 وسنده صحيح، سنن الترمذي: 1031، وقال: ”حسن صحيح“ وصححه ابن حبان: 769 والحاكم عليٰ شرط البخاري 1؍363 ووافقه الذهبي]
◈ اس حدیث کے راوی سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
” «سقط» کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے والدین کے لئے مغفرت و رحمت کی دعا کی جائے گی۔“ [مصنف ابن ابي شيبه 3؍317 ح11589 وسنده صحيح]
◈ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ناتمام مردہ بچے کی نماز جنازہ پڑھی، نافع نے کہا کہ مجھے پتا نہیں کہ وہ زندہ پیدا ہو کر (مر گیا تھا) یا پیدا ہی مردہ ہوا تھا۔ [ابن ابي شيبه 3؍317 ح 11584، وسنده صحيح]
◈ مشہور تابعی محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا:
اگر اس کی تخلیق پوری ہو جائے تو اس کا نام رکھا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ اسی طرح پڑھی جائے گی، جس طرح بڑے آدمی کی پڑھی جاتی ہے۔ [ابن ابي شيبه 3؍317 ح11588، وسنده صحيح]
◈ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ہم اپنی اولاد میں سے کسی کو بھی نماز جنازہ پڑھے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔“ [ابن ابي شيبه 3؍317 ح11590، وسنده صحيح]
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«والعمل عليه عند بعض أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم وغيرهم، قالوا: يصليٰ على الطفل وإن لم يستهل بعد أن يعلم أنه خلق وهو قول أحمد وإسحاق»
”صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض کا اسی پر عمل ہے، انہوں نے کہا: بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اگرچہ وہ پیدا ہوتے وقت آواز نہ نکالے، یہ معلوم ہو جانے کے بعد کہ اس کی تخلیق (مکمل) ہو چکی ہے اور أحمد (بن حنبل) اور اسحاق (بن راہویہ) کا یہی قول ہے۔“ [سنن الترمذي: 1031]
↰ جو علماء مردہ بچے کی نماز جنازہ کے قائل نہیں ہیں، ان کا قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے متروک و ناقابل حجت ہے۔
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ چھوٹے بچے پر نماز جنازہ میں درج ذیل دعا پڑھتے تھے:
«اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ فَرَطَاً وَذُخْراً»
”اے اللہ! اسے امیر سامان، آگے چلنے والا اور ذخیرہ بنادے۔“ [السنن الكبريٰ للبيهقي 4؍10، وسنده حسن]
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 82
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4708
´تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (آپ صادق اور آپ کی صداقت مسلم ہے) بیان فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کا تخلیقی نطفہ چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع رکھا جاتا ہے، پھر اتنے ہی دن وہ خون کا جما ہوا ٹکڑا رہتا ہے، پھر وہ اتنے ہی دن گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے، پھر اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے: تو وہ اس کا رزق، اس کی عمر، اس کا عمل لکھتا ہے، پھر لکھتا ہے: آیا وہ بدبخت ہے یا نیک بخت، پھر وہ اس میں روح پھونکتا ہے، اب اگر تم میں سے کوئی جنتیوں کے عمل کرتا ہے، یہاں تک کہ اس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4708]
فوائد ومسائل:
1: بظاہر اگر کوئی انسان ایک راہ پر جارہا ہوتو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ہمیشہ اسی راہ پر چلتا رہے گا، اس کے اگر آخر میں جا کر بھی راستہ بدل لینا ہے تو یہ سب پہلے سے اللہ کے علم کے مطابق لکھا ہواہے۔
2: تقدیرکا معاملہ سراسر غیب کا معاملہ ہے، انسان کو خود بھی خیر کے عمل کرکے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ بس بخشا گیا یا غلط ہونے کی وجہ سے بابکل ہی مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ بس مارا گیا، بلکہ ہمیشہ اللہ الرحمن الرحیم سے بھلائی کی توفیق مانگتے رہنا چاہیے اور غلط کشی سے فورا توبہ کرنی چاہیے اور یہ دعا بھی کرنا چاہیے: (یا مقلبَ القلوبِ ثَبِّت قلبي علی دینِكَ) (جامع الترمذي، الدعوات،باب: الدعاء، یا مقلب القلوب، حدیث: 3522) (اللهم مصرفَ القلوبِ صرِّف قلبي علی طاعتِكَ) (صحیح مسلم، القدر،باب تصریف اللہ تعالی القلوب کیف یشاء، حدیث: 2654) اے دلوں کے بدلنے والے، مجھے اپنے دین کی اطاعت پر ثابت قدم رکھ۔
۔
۔
۔
اور اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4708
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث76
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو صادق و مصدوق (یعنی جو خود سچے ہیں اور سچے مانے گئے ہیں) نے بیان کیا کہ ”پیدائش اس طرح ہے کہ تم میں سے ہر ایک کا نطفہ خلقت ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک جمع رکھا جاتا ہے، پھر وہ چالیس دن تک جما ہوا خون رہتا ہے، پھر چالیس دن تک گوشت کا ٹکڑا ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس چار باتوں کا حکم دے کر ایک فرشتہ بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس فرشتہ سے کہتا ہے: اس کا عمل، اس کی مدت عمر، اس کا رزق، اور اس کا بدبخت یا نیک بخت ہونا لکھو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 76]
اردو حاشہ:
(1)
تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ ابد تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے، اس کا علم پہلے سے اللہ کو ہے اور اس نے اسے لکھ رکھا ہے۔
اب جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کے ازلی علم کے مطابق ہی ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ نے گناہ گار کو گناہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔
انسان اللہ کی دی ہوئی طاقت ہی سے نیکی یا گناہ کرتا ہے۔
اگراللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ اختیار چھین لیتا لیکن وہ ایسا نہیں کرتا، البتہ اسے پہلے سے معلوم ہے کہ فلاں بندہ اس اختیار کو صحیح طریقے سے استعمال کر کے اس کی خوشنودی حاصل کر لے گا اور فلاں بندہ اس اختیار کے غلط استعمال کی وجہ سے اللہ کو ناراض کر کے سزا کا مستحق ہو جائے گا۔
(2)
انسان کے نیک و بد اعمال، اس کی عمر، اس کا رزق اور اس کا جنتی یا جہنمی ہونا ایک خاص وقت پر اللہ کے بتانے سے فرشتوں کے علم میں آتا ہے اور وہ لکھ لیتے ہیں، اگرچہ یہ فیصلے ازل میں ہو چکے ہیں اور لوح محفوظ میں درج ہو چکے ہیں۔
(3)
ماں کے پیٹ میں انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل ہیں۔
ایک مرحلے سے دوسرے مرحلہ میں وہ دیکھنے میں خون سے زیادہ مشابہ محسوس ہوتا ہے۔
تیسرے مرحلے میں اعضاء بننے لگتے ہیں لیکن مجموعی طور پر وہ نرم گوشت کے ٹکڑے سے مشابہ نظر آتا ہے۔
(4)
ہر انسان کی عمر مقرر ہے۔
اس سے پہلے فوت نہیں ہو سکتا، لہذا بندے کو جان کے خوف سے ایمان ترک نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایمان کی حفاظت کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
(5)
ہر انسان کا رزق مقرر ہو چکا ہے جو اسے بہرحال ملنا ہے، بندے کی آزمائش اسی چیز میں ہے کہ وہ اس کے حصول کے لیے کون سے ذرائع اختیار کرنے سے بھی نہیں ملے گی، اس لیے اللہ پر توکل کرتے ہوئے رزق حلال حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(6)
کسی شخص کے بارے میں بالیقین جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
یہ بات صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کون جنت میں جانے والا ہے اور کون جہنم کا ایندھن بننے والا ہے، البتہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھنا ضروری ہے اور کسی نیک آدمی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے یہی کہنا چاہیے کہ ہمارے خیال میں وہ نیک آدمی تھا اور ہم اللہ کی رحمت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ جنت میں جائے گا، البتہ جن افراد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یا اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے، ان کے جنتی یا جہنمی ہونے کے بارے میں یقین رکھنا چاہیے، مثلا:
ابولہب اور اس کی بیوی کا جہنمی ہونا، جیسے سورہ لہب میں مذکور ہے یا عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنھم کا جنتی ہونا وغیرہ۔
(7)
کسی غیر مسلم یا گناہ گار کو تبلیغ کی جائے اور وہ قبول نہ کرے تو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اسے ہرگز ہدایت نہیں ملے گی کیونکہ اس کا علم صرف اللہ کو ہے ممکن ہے آخری وقت میں ہدایت نصیب ہو جائے، جیسے ایک یہودی لڑکے کو مرض الموت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام لانے کو کہا، تو وہ اسلام لے آیا اور فوت ہو گیا۔ (صحيح البخاري، الجنائز، باب إذا أسلم الصبي فمات هل يُصلي عليه... حديث: 1356)
(8)
مومن کو نیکیوں پر فخر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ کا خوف رکھتے ہوئے استقامت کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی:
﴿فاطِرَ السَّمـوتِ وَالأَرضِ أَنتَ وَلِيّۦ فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ تَوَفَّنى مُسلِمًا وَأَلحِقنى بِالصّـلِحينَ﴾ (یوسف: 101)
”اے زمین اور آسمان کے بنانے والے! تو ہی دنیا اور آخرت مین میرا دوست اور کارساز ہے، مجھے اسلام کی حالت میں فوت کرنا اور نیکوں میں شامل کر دینا۔“
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 76
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2137
´خاتمہ والے اعمال معتبر ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے صادق و مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ۱؎، ”تم میں سے ہر آدمی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن تک «علقة» (یعنی جمے ہوئے خون) کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن تک «مضغة» (یعنی گوشت کے لوتھڑے) کی شکل میں رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کے اندر روح پھونکتا ہے، پھر اسے چار چیزوں (کے لکھنے) کا حکم کیا جاتا ہے، چنانچہ وہ لکھتا ہے: اس کا رزق، اس کی موت، اس کا عمل اور یہ چیز کہ وہ «شقي» (بدبخت) ہے یا «سعيد» (نیک بخ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب القدر/حدیث: 2137]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی سچے ہیں او ر سچی بات آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2137
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:126
126- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حدیث سنائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر شخص کے نطفے کو اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک رکھا جاتا ہے، پھر وہ اتنے ہی عرصے تک جمے ہوئے خون کی صورت میں رہتا ہے، پھر وہ اتنے ہی عرصے تک گوشت کے لوٹھڑے کی صورت میں رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ چار چیزوں کے ہمراہ فرشتے کو اس کی طرف بھیجتا ہے اور فرماتا ہے تم اس کا عمل، اسکی زندگی کی آخری حد، اس کا بدبخت یا نیک بخت ہونا تحریر کردو۔ پھر وہ فرشتہ اس میں روح پھونک دیتا ہے۔“ پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:126]
فائدہ:
اس حدیث میں انسان کی تخلیق کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ عدم سے ”احسن تقویم“ اور ”اشرف الخلوقات“ انسان کو وجود بخشا ہے، سبحان اللہ۔ اس حدیث میں تقدیر کا بھی بیان ہے، تقدیر کا مفہوم یہ ہے کہ جو کام انسان نے کرنے تھے، وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں، اور وہی علم لکھا گیا ہے، اس کا نام تقدیر ہے۔ تقدیر برحق ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے، اس میں بحث و جدال منع ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 126
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6723
حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صادق اور مصدوق ہیں، نے بتایا "تم میں سے ہر ایک کا مادہ تخلیق چالیس دن اپنی ماں کے پیٹ میں نطفہ کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے دنوں میں منجمد خون کی شکل اختیار کرتا ہے، پھر اتنی ہی مدت میں گوشت کے لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے، پھر فرشتے کو بھیجا جاتا ہے اور وہ اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے، اس کا رزق، اس کی مدت حیات، اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6723]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
الصادق:
سچ کہنے والا،
المصدوق،
جس کے قول اور وحی کی تصدیق کی جاتی ہے،
يجمع خلقه في بطن امه:
ماں کے پیٹ میں منی کا نطفہ چالیس دن تک مختلف مراحل سے گزرتا ہے،
پھر چالیس دن منجمد خون کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے اور پھر چالیس دن تک گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں مختلف مراحل طے کرتا ہے اور اس مدت میں اعضاء کی تشکیل اور ہڈیوں کی بناوٹ کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں اور چار ماہ کے بعد جب اعضاء،
ہڈیوں اور گوشت پوست کا ظہور ہو جاتا ہے تو اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔
" فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
انسان جب رحم مادر میں ہوتا ہے اور اس پر تین چلے،
یعنی چار ماہ گزر جاتے ہیں تو پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے اور اللہ کا مقرر کیا ہوا فرشتہ اس کے متعلق چار باتیں لکھتا ہے،
اس کا رزق،
اس کی مدت حیات و عمر،
اس کے اعمال اور اس کا نیک بخت یا بدبخت لکھا ہوتا ہے،
بسا اوقات وہ ایک مدت تک جنتیوں کی سی پاکبازانہ زندگی گزارتا رہتا ہے اور بظاہر نیک اعمال کرتا رہتا ہے،
یہاں تک کہ وہ جنت کے بہت قریب ہو جاتا ہے،
لیکن پھر ایک دم اس کے رویہ میں تبدیلی رونما ہو جاتی ہے اور وہ دوزخ میں لے جانے والے برے اعمال کرنے لگتا ہے اور اس حال میں مر کر بالآخر دوزخ میں چلا جاتا ہے اور اس طرح بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک انسان جو نوشتہ میں جنتی لکھا جاتا ہے،
وہ ایک عرصہ تک بظاہر دوزخیوں والا رویہ اختیار کیے رہتا ہے اور برے اعمال کرتا رہتا ہے،
یہاں تک کہ وہ دوزخ کے بہت قریب پہنچ جاتا ہے،
لیکن پھر اچانک وہ پلٹا کھاتا ہے اور وہ سنبھل جاتا ہے اور اہل جنت والے اعمال صالحہ کرنے لگ جاتا ہے اور اعمال صالحہ پر ہی اس کا خاتمہ ہوتا ہے اور وہ جنت میں چلا جاتا ہے،
اس لیے کسی کو بداعمالیوں میں مبتلا دیکھ کر اس کے دوزخی ہونے کا قطعی حکم لگانا درست نہیں ہے،
کیا معلوم زندگی کے آخری دور میں اس کا رویہ اور طرز عمل یکسر بدل جائے،
اسی طرح اگر کسی کو آج اللہ کی طرف سے نیک عملوں کی توفیق میسر آ رہی ہے تو اسے اس پر مطمئن اور بے فکر نہیں ہو جانا چاہیے،
بلکہ پوری دل جمعی اور قوت سے برابر حسن خاتمہ کے لیے کوشاں رہنا چاہیے،
محض اچھے عملوں پر شاداں اور فرحاں نہیں ہونا چاہیے،
کیونکہ دارومدار اور انحصار خاتمہ پر ہے،
جو انسان کو معلوم نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا علم چونکہ ازلی و اندی ہے اس لیے اسے اس بات کا علم ہے کہ اس کا خاتمہ کن اعمال پر ہو گا،
اچھے یا برے اسی کے مطابق اس کا سعید یا شقی ہونا لکھا جاتا ہے۔
اللہ کے علم میں چونکہ تخلف ممکن نہیں ہے،
اس کا علم واقعہ اور ہئیت کے مطابق ہوتا ہے اس کے خلاف ممکن نہیں ہو گا جیسا انجام ہونا ویسے اعمال ہی اس نے کرنے ہوتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6723
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6594
6594. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا جو صادق ومصدق ہیں: تم میں سے ہر ایک(کا مادہ تخلیق) اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک جمع رہتا ہے۔ پھر وہ اتنی ہی مدت میں خون بستہ (جمے ہوئے خون) کی شکل اختیار کر لیتا ہے پھر اتنے ہی عرصے میں وہ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالٰی ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم ہوتا ہے: اس کی روزی اس کی عمر،اس کا نیک یا بد ہونا یہ سب لکھ لیتا ہے پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ اللہ کی قسم! تم میں سے ایک اہل جہنم کے عمل کرنے لگتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر پر اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے پھر وہ جنت کے کام کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک دو ہاتھ کا فاصلہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6594]
حدیث حاشیہ:
یعنی اس کے جنت یا دوزخ کا فاصلہ اتنا ہی رہ جاتا ہے۔
قسمت غالب آتی ہے اور وہ تقدیر کے مطابق جنت یا دوزخ میں داخل کیا جاتا ہے۔
اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِي مِن أهلِ النارِ فامحهُ فَإِنَّكَ تَمْحُو مَا تَشَاءُ وَتُثْبِتُ، وَعِنْدَكَ أُمُّ الْكِتَابِ آمین۔
دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ وہ اس میں روح پھونکتا ہے، تو روح چار مہینے کے بعد پھونکی جاتی ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوں ہے کہ چار مہینے دس دن کے بعد۔
قاضی عیاض نے کہا اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ روح ایک سو بیس دن کے بعد پھونکی جاتی ہے اور مشاہدہ اور جنین کی حرکت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔
میں (وحید الزماں)
کہتا ہوںکہ اس زمانے کے حکیموں اور ڈاکٹروں نے مشاہدہ اور تجربہ سے ثابت کیا ہے کہ چار مہینے گزرنے سے پہلے ہی جنین میں جان پڑجاتی ہے۔
اب جن روایتوں میں روح پھونکنے کا ذکر نہیں ہے جیسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی اس روایت میں ہے ان میں تو کوئی اشکال ہی نہ ہوگا لیکن جن روایتوں میں اس کا ذکر ہے تو حدیث غلط نہیں ہوسکتی بلکہ حکیموں اور ڈاکٹروں کا دعویٰ غلط ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ روح حیوانی چار مہینے سے پہلے ہی جنین میں پڑجاتی ہے لیکن حدیث میں روح سے مراد روح انسانی یعنی نفس ناطقہ ہے۔
وہ چار مہینے دس دن کے بعد ہی بدن سے متعلق ہوتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6594
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7454
7454. سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم سے رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا جو صادق ومصدوق ہیں: تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس طرح ہے کہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس رات نطفہ جمع رہتا ہے۔پھر وہ اسی طرح جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرلیتا ہے پھر اتنے ہی دنوں میں گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے وہ اس کا رزق، اس کی موت، اس کا عمل، اور اس کا نیک یا بد ہونا لکھ لیتا ہے۔ اس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ بے شک تم میں سے ایک اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آ جاتی ہے اور وہ اہل جہنم کے سے عمل کرنے لگتا ہے اور دوذخ میں داخل ہو جاتا ہے اسی طرح ایک شخص اہل جہنم کے سے عمل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7454]
حدیث حاشیہ:
تواعتبار خاتمہ کا ہے۔
اس حدیث سے حضرت امام بخاری نے یہ ثابت کیا کہ اللہ کا کلام حادث ہوتا ہے کیونکہ جب نطفہ پر چارمہینے گزر لیتے ہیں، اس وقت فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اللہ تعالی صرف چار چیزوں کے لکھنے کا اس کو حکم دیتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7454
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3208
3208. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتایا جو کہ صادق ومصدوق ہیں: ”تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے، پھر اتنے ہی وقت تک منجمد خون کی شکل اختیار کرتا ہے۔ پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فر شتہ بھیجتا ہے۔ اور اسےچار باتوں کاحکم دیا جاتاہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل، اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ بھی لکھ دے کہ بدبخت یا نیک بخت۔ اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے پھر تم میں سے کوئی ایسا ہوتا ہے جو نیک عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے مگر اس پر نوشتہ تقدیر غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جہنم کا کام کربیٹھتا ہے۔ ایسے ہی کوئی شخص برے کام کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور دوزخ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3208]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ جب مرد عورت سے صحبت کرتا ہے تو مرد کا پانی عورت کے ہر رگ و پے میں سما جاتا ہے۔
ساتویں دن اللہ اس کو اکٹھا کرکے اس سے ایک صورت جوڑتا ہے۔
پھر نفس ناطقہ چوتھے چلہ میں یعنی چار مہینے کے بعد اس سے متعلق ہوجاتا ہے۔
جو لوگ اعتراضاً کہتے ہیں کہ چار ماہ سے قبل ہی حمل میں جان پڑ جاتی ہے ان کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں روح سے نفس ناطقہ مدرکہ مراد ہے اسے روح انسانی کہا جاتا ہے اور روح حیوانی پہلے ہی سے بلکہ نطفہ کے اندر بھی موجود رہتی ہے۔
لہٰذا اعتراض باطل ہوا۔
اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اعتبار خاتمہ کا ہے اس لیے آدمی کیسے ہی اچھے کام کررہا ہو پھر بھی خرابی خاتمہ سے ڈرتے رہنا چاہئے۔
بزرگوں نے تجربہ کیا ہے کہ جو لوگ حدیث شریف سے محبت رکھتے ہیں اور اسی فن شریف میں مشغول رہتے ہیں، اکثر ان کی عمر دراز ہوتی ہے اور خاتمہ بالخیر نصیب ہوتا ہے۔
یا اللہ! اپنے حقیر ناچیز بندے محمد داؤد راز کو بھی حدیث کی یہ برکا عطا فرمائیو اور میرے جملہ معاونین کرام کو جن کی حدیث دوستی نے مجھ کو اس عظیم خدمت کے انجام دینے کے لیے آمادہ کیا۔
اللہ پاک ان سب کو برکات دارین سے نوازیو۔
آمین ثم آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3208
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3208
3208. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتایا جو کہ صادق ومصدوق ہیں: ”تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے، پھر اتنے ہی وقت تک منجمد خون کی شکل اختیار کرتا ہے۔ پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فر شتہ بھیجتا ہے۔ اور اسےچار باتوں کاحکم دیا جاتاہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل، اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ بھی لکھ دے کہ بدبخت یا نیک بخت۔ اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے پھر تم میں سے کوئی ایسا ہوتا ہے جو نیک عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے مگر اس پر نوشتہ تقدیر غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جہنم کا کام کربیٹھتا ہے۔ ایسے ہی کوئی شخص برے کام کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور دوزخ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3208]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت مالک بن حویرث ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے:
”جب مرد،عورت سے صحبت کرتا ہے تو مرد کا پانی عورت کے ہررگ وریشے میں سما جاتاہے،پھر ساتویں دن اللہ تعالیٰ اسے اکٹھا کرکے اس سے ایک صورت جوڑتا ہے۔
“ (فتح الباري: 585/11 و السلسلة الصحیحة للألباني، حدیث: 3330)
2۔
جدید طب کا دعویٰ ہے کہ چار ماہ سے پہلے ہی حمل میں جان پڑجاتی ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں روح سے مراد نفس ناطقہ مدرکہ ہے جو ختم نہیں ہوتا بلکہ موت کے وقت نکلتا ہے۔
اسے روح انسانی بھی کہتے ہیں اورقرآن کریم نے اسے " أَمْرِ رَبِّي " قراردیاہے۔
اس کے برعکس روح حیوانی پہلے ہی سے بلکہ نطفے کے اندر بھی موجود رہتی ہے۔
یہ روح حیوانی موت کے وقت ختم ہوجاتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں چار ماہ سے پہلے حرکت، حرکت نمواور اور بڑھوتری ہوتی ہے۔
3۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے فرشتوں کا وجود ثابت کیا ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق ہیں اور ان کی کئی ایک قسمیں ہیں جن کی تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
ان میں سے فرشتوں کی ایک قسم رحم مادر سے متعلق ہے، چنانچہ حضرت انس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ نے عورت کے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کررکھا ہے جو کہتا ہے:
پروردگار! اب نطفہ پڑا۔
پروردگار اب یہ خون بن گیا۔
پروردگار! اب یہ لوتھڑا بن گیا۔
پھر جب اللہ تعالیٰ اس کی پیدائش کے متعلق حکم کردیتاہے تو فرشتہ پوچھتا ہے کہ یہ مرد ہے یا عورت؟ بدبخت ہے یا نیک بخت؟ اس کی روزی کیا ہے؟ اس کی عمر کیا ہے؟ پھر ماں کے پیٹ ہی میں اس بچے کے ہوتے ہوئے یہ سب کچھ لکھ دیاجاتاہے۔
“ (صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 318)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3208
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7454
7454. سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم سے رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا جو صادق ومصدوق ہیں: تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس طرح ہے کہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس رات نطفہ جمع رہتا ہے۔پھر وہ اسی طرح جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرلیتا ہے پھر اتنے ہی دنوں میں گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے وہ اس کا رزق، اس کی موت، اس کا عمل، اور اس کا نیک یا بد ہونا لکھ لیتا ہے۔ اس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ بے شک تم میں سے ایک اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آ جاتی ہے اور وہ اہل جہنم کے سے عمل کرنے لگتا ہے اور دوذخ میں داخل ہو جاتا ہے اسی طرح ایک شخص اہل جہنم کے سے عمل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7454]
حدیث حاشیہ:
1۔
انسان اپنی پیدائش سے پہلے جن مراحل سے گزرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی بیان کیا ہے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
”اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے محفوظ مقام (رحم مادر)
میں نطفہ بنا کر رکھا پھر نطفے کو لوتھڑا (جما ہوا خون بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا پھر بوٹی کو ہڈیاں بنایا پھر ہم نے ہڈیوں پر کچھ گوشت چڑھایا پھر ہم نے اسے ایک اور ہی صورت میں پیدا کر دیا۔
پس بڑا با برکت ہے اللہ جو سب بنانے والوں سے بہتر بنانے والاہے۔
“ (المومنون23۔
12)
2۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کے اعمال و کردار سے اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم اور اس کی قدرت بہت وسیع ہے اور اس نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے اور وہی اشیاء کی حقیقت ان کی پیدا ئش سے پہلے جانتا ہے نیز اس نے ہر چیز کو اپنے ہاں لکھ رکھا ہے۔
آئندہ وقوع پذیر ہونے والے حوادث اس تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں اس حدیث میں جس تقدیر کے لکھنے کا ذکر ہے یہ اس لکھی ہوئی تقدیر سے علیحدہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کائنات سے پہلے لکھ رکھا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
”کوئی بھی مصیبت جو زمین میں آتی ہے یا خود تمھارے نفوس کو پہنچتی ہے وہ ہمارے پیدا کرنے سے پہلے ہی ایک کتاب لکھی ہوئی ہے۔
“ (الحدید57۔
22)
3۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے کائنات میں ہونے والے واقعات تحریر کر لیے تھے۔
“ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6748ـ2653)
اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور واقعات کی تحریر انسان کے ارادے اور اختیار کے منافی نہیں۔
بہر حال اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ اہل سعادت کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ کی رحمت نے انھیں اپنے گھیرے میں لے لیا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا اندازہ ٹھہرا لیا اور اسے اپنے پاس لکھ لیا پھر عمل کی توفیق دی اور اس کے لیے اسباب اور ذرائع پیدا کیے گویا یہ تمام مراحل درج ذیل آیت کا حصہ ہیں جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بطورعنوان منتخب کیا ہے۔
”اور ہمارے بندے جو رسول ہیں ان کے حق میں پہلے ہی ہماری بات صادر ہو چکی ہے کہ یقیناً ان کی مدد کی جائے گی اور بے شک ہمارا لشکر یقیناً وہی غالب رہے گا۔
“
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7454