وعن انس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ثلاث من اصل الإيمان الكف عمن قال لا إله إلا الله ولا نكفره بذنب ولا نخرجه من الإسلام بعمل -[25]- والجهاد ماض منذ بعثني الله إلى ان يقاتل آخر امتي الدجال لا يبطله جور جائر ولا عدل عادل والإيمان بالاقدار» . رواه ابو داود وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «ثَلَاث من أَصْلِ الْإِيمَانِ الْكَفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا الله وَلَا نكفره بذنب وَلَا نخرجهُ من الْإِسْلَام بِعَمَل -[25]- وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِي اللَّهُ إِلَى أَنْ يُقَاتل آخر أمتِي الدَّجَّالَ لَا يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادل وَالْإِيمَان بالأقدار» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تین (خصلتیں) ایمان کی اصل بنیاد ہیں، (لا الہ الا اللہ)”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ “ کا اقرار کرنے والے شخص کے درپے ہونے سے رک جانا، کسی گناہ یا کسی اور خلاف شرع عمل کی وجہ سے کسی کو اسلام سے خارج مت کرو، جہاد جاری ہے، جب سے اللہ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے، اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب اس امت کا آخری شخص دجال سے قتال کرے گا، کسی ظالم کا ظلم اسے روک سکے گا نہ کسی عادل کا عدل، اور تقدیر پر ایمان رکھنا۔ “ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (2532) ٭ فيه يزيد بن أبي نشبة وھو مجھول.»
ثلاث من أصل الإيمان الكف عمن قال لا إله إلا الله ولا تكفره بذنب ولا تخرجه من الإسلام بعمل والجهاد ماض منذ بعثني الله إلى أن يقاتل آخر أمتي الدجال لا يبطله جور جائر ولا عدل عادل والإيمان بالأقدار
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 59
تحقیق الحدیث: ضعیف ہے۔ اسے ابوداود [2532] نے روایت کیا ہے۔ اس روایت کی سند یزید بن ابی نشبہ کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ماہنامہ الحدیث: 15 ص10] (ماہنامہ الحدیث: 15 کا مضمون یہ ہے) «يزيد بن ابي نُشبه عن انس بن مالك رضى الله عنه» کی سند سے ایک روایت مروی ہے۔ اس روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ: ❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «والجهاد ماضٍ منذ بعثني الله إلى ان يقاتل آخر امتي الدجال، لا يبطله جو رجا ئر ولا عدل عادل» ”جب سے اللہ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے، جہاد جاری رہے گا یہاں تک کہ میرا آخری امتی دجال سے جنگ کرے گا، اسے کسی ظالم (حکمران) کا ظلم اور عادل کا عدل باطل نہیں کرے گا۔“[سنن ابي داؤد: 2532، سنن سعيد بن منصور: 2367] ↰ یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔ اس کا راوی یزید بن ابی نشبہ مجہول ہے۔ [تقریب التہذیب: 7785، الکاشف للذہبی: 6475]
یاد رہے کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ ✿ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: «كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ» ”تمہارے اوپر قتال فرض کیا گیا ہے اور یہ تمہیں ناپسند تھا۔“[2-البقرة:216] ❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الخيل معقود فى نواصيها الخير إلى يوم القيامة، الأجر و المغنم» ” گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر رکھی گئی ہے، اجر بھی ہے اور مالِ غنیمت بھی۔“[صحيح البخاري: كتاب الجهاد و السير باب الجهاد ماض مع البرو الفاجرح 2852و صحيح مسلم: 99؍73ادارالسلام: 4849] ❀ سَلَمہ بن نُفیل الکِندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ولا يزال من امتي امة يقاتلون على الحق۔۔۔ حتي تقوم الساعة» ” اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پرقتال کرتا رہے گا۔۔۔ حتی کہ قیامت برپا ہو جائے گی۔“[سنن النسائی 6؍214، 215 ح3591، وإسنادہ صحیح ؍عمدۃ المساعی فی تحقیق سنن النسائی ج 2ص 359 قلمی لراقم الحروف] ❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لن يبرح هذا الدين قائماً، يقاتل عليه عصابة من المسلمين حتي تقوم الساعة» ”یہ دین (اسلام) ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جامعت دین کے لئے قیامت تک قتال کرتی رہے گی۔“[صحیح مسلم: 1922 دارالسلام: 4953 عن جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ] ان احادیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔
◈ ابن ہمام (حنفی متوفی 761ھ) لکھتے ہیں کہ: «ولا شك أن اجماع الامة أن الجهاد ماض إلى يوم القيامة لم ينسخ، فلا يتصور نسخه بعد النبى صلى الله عليه وسلم» ” اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امت کا اس پر اجماع ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا، یہ منسوخ نہیں ہوا، پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات) کے بعد اس کی منسوخیت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔“[فتح القدیر ج 5ص190 کتاب السیر]
◈ مشہور جلیل القدر تابعی امام مکحول الشامی رحمہ اللہ (متوفی 113ھ) فرماتے ہیں کہ: «إن فى الجنة لمائة درجة، مابين الدرجة إلى الدرجة كما بين السماء و الارض، أعدها الله للمجاهدين فى سبيل الله» ” بے شک جنت میں سو درجے ہیں، ایک درجے سے دوسرے درجے کے درمیان زمین و آسمان جتنا فاصلہ ہے، انہیں اللہ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں (مجاہدین) کے لئے تیار کر رکھا ہے۔“[مصنف ابن ابی شیبہ 5؍304 ح19353 و سندہ صحیح] اس بہترین قول کی تائید صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں موجود ہے۔ [البخاری: 2790] خلاصہ التحقیق: جہاد قیامت تک، کافروں اور مبتدعین کے خلاف جاری رہے گا۔
جہاد کی بہت سی قسمیں ہیں۔ ➊ زبان کے ساتھ جہاد کرنا ➋ قلم کے ساتھ جہاد کرنا ❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: «جاهدو المشركين بأيديكم وألسنتكم» ” اپنے ہاتھوں اور زبانوں کے ساتھ مشرکوں سے جہاد کرو۔“[المختارة للضياء المقدسي ج5ص36ح642اواللفظ له، سنن ابي داؤد: 2504] ➌ مال کے ساتھ جہاد کرنا ✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ»[2-البقرة:262] ” جو لوگ اللہ کے راستے میں میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر اس خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ تکلیف پہنچاتے ہیں تو ان کے لئے اُن کے رب کے پاس اجر ہے۔“ ➍ اپنی جان کے ساتھ جہاد کرنا (جہاد بالنفس) اس کی دو قسمیں ہیں: اول: اپنے نفس کی اصلاح کر کے اُسے کتاب و سنت کا مُطیع و تابع کر دینا۔ ❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: «المجاهد من جاهد نفسه» ” مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔“[الترمذي: 1621وقال:“ حديث حسن صحيح ” وسنده حسن و صححه ابن حبان /موارد: 1624او الحاكم على شرط مسلم2/79 و وافقه الذهبي] دوم: اللہ کے راستے میں قتال کرنا اس کے بے شمار دلائل ہیں جن میں سے بعض حوالے شروع میں گزر چکے ہیں۔ اگر شرائط اسلامیہ کے مطابق ہو تو سب سے افضل جہاد یہی ہے۔ ❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا جہاد افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من جاهد المشركين بماله و نفسه» ” جو شخص مشرکوں سے اپنے مال اور اپنی جان (نفس) کے ساتھ جہاد کرے۔ پوچھا گیا: کون سا مقتول سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من أهريق دمه و عقر جواده»” جس کا خون (کافروں کے ہاتھوں) بہا دیا جائے اور اس کا گھوڑا کاٹ (کر مار) دیا جائے۔“[سنن ابی داؤد: 1449 و سندہ حسن] یاد رہے کہ دہشتگردی اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کا، جہاد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ◈ امام ابوحاتم الرازی اور امام ابوزرعہ الرازی رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ: ہر زمانے (اور علاقے) میں ہم مسلمان حکمران کے ساتھ جہاد اور حج کی فرضیت پر عمل پیرا ہیں۔۔۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نبی و رسول بنا کر) مبعوث فرمایا ہے، مسلمان حکمرانوں کے ساتھ مل کر (کافروں کے خلاف) جہاد جاری رہے گا۔ اسے کوئی چیز باطل نہیں کرے گی۔ (یعنی جہاد ہمیشہ جاری رہے گا)[أصل السنة و اعتقاد الدين: 19، 23، الحديث حضرو: 2 ص 43] نیز دیکھئے: [الحديث: 3ص26] ◈ دکتور عبداللہ بن احمد القادری نے «الجهاد فى سبيل الله، حقيقته و غايته» ’ کے نام سے دو جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے، ساڑھے گیارہ سو سے زائد صفحات کی اس کتاب میں عبداللہ بن احمد صاحب جہاد کی قسمیں بیان کرتے ہیں: جہاد معنوی ➊ «جهاد النفس»، (نفس سے جہاد)، ➋ «جهاد الشيطان»(شیطان سے جہاد)، ➌ «جهاد الفرقة والتصدع»(تفرق اور انتشار کے خلاف جہاد)، ➍ «جهاد التقليد»(تقلید کے خلاف جہاد)، ➎ «جهاد الأسرة»(خاندانی رسومات کے خلاف جہاد) ➏ «جهاد الدعوة»
جہاد مادی ➊ «اعداد المجاهدين»(مجاہدین کی تیاری)، ➋ «الجهاد بالأنفس و الأموال»(نفس اور مال کے ساتھ جہاد)، ➌ «انشاء المصانع الجهادية»(جہادی قلعوں کی تیاری)[ج1 ص 273]
لوگوں کو کتاب و سنت کی دعوت دینا، تقلید اور بدعات کے خلاف پوری کوشش کرنا بھی بہت بڑا جہاد ہے۔ ◈ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «فالراد على أهل البدع مجاهد» ” پس اہلِ بدعت پر رد کرنے والا مجاہد ہے۔“[نقض المنطق ص 12 و مجموع فتاوی ابن تیمیہ 4/13] ❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا جہاد سب سے افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «كلمة عدل عند إمام جائر» ” ظالم حکمران کے سامنے عدل (انصاف، حق) والی بات کہنا۔ ”[مسند احمد 5؍256 ح22561و سندہ حسن لذاتہ، و ابن ماجہ: 4012] مدرسے و مساجد تعمیر کرنا، لوگوں کو قرآن و حدیث علی فہم السلف الصالح کی دعوت دینا، اس کے لئے تقریریں و مناظرے کرنا اور کتابیں لکھنا، یہ سب جہاد ہے۔
آخر میں دو حدیثیں پڑھ لیں۔ ❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مثل المجاهد فى سبيل الله، والله اعلم بمن يجاهد فى سبيله، كمثل الصائم القائم» ”اللہ کے راستے میں مجاہد کی مثال، اور اللہ جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے (مسلسل) روزہ دار اور (راتوں کو) قیام کرنے والے کی طرح ہے۔“[صحیح بخاری: 2787] ❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من خرج من الطاعة و فارق الجماعة ثم مات مات ميتة جاهلية، ومن قتل تحت راية عمية يغضب للعصبة و يقاتل للعصبة فليس من أمتي» ”جو شخص (خلیفہ کی) اطاعت سے نکل گیا اور (مسلمانوں کی) جماعت (یا اجماع) کی مخالفت کی تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے، اور جو شخص اندھے (جاہلیت کے) جھنڈے کے نیچے مارا گیا، وہ خاندان کے لئے غصہ اور قتال کرتا تھا تو یہ شخص میری امت میں سے نہیں ہے۔۔۔“ إلخ [صحيح مسلم، كتاب الإمارة، باب و جوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن 54؍848 دارالسلام: 4788] «وما علينا إلا البلاغ»