وعن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مثل المنافق كمثل الشاة العائرة بين الغنمين تعير إلى هذه مرة وإلى هذه مرة» . رواه مسلموَعَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مثل الْمُنَافِق كَمثل الشَّاة الْعَائِرَةِ بَيْنَ الْغُنْمَيْنِ تَعِيرُ إِلَى هَذِهِ مَرَّةً وَإِلَى هَذِه مرّة» . رَوَاهُ مُسلم
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”منافق کی مثال اس متردد بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان ہو، کبھی وہ اس کی طرف جاتی ہے کبھی اس کی طرف۔ “ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2784/ 17)»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 57
تخریج: [صحيح مسلم 7043]
فقہ الحدیث: ➊ عملی نفاق کبیرہ گناہوں میں سے ہے جب کہ اعتقادی نفاق کفر ہے۔ ➋ دو کشتیوں پر بیک وقت پاؤں رکھنے والا بالآخر ڈوب جاتا ہے۔ اسے اس کا دوغلا پن ذرہ بھی فائدہ نہیں پہنچاتا۔ ➌ منافقین اصل میں حیوانات سے بھی بدتر ہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7043
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"منافق کی تمثیل اس بکری کی طرح ہے، بکریوں میں حیران و پریشان گھومتی پھرتی ہے،کبھی اس کی طرف بھاگتی ہے، کبھی اس کی طرف دوڑتی ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7043]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: العائرة: حیران وپریشان ہو کر ادھر ادھر گھومنے والی، جس کو پتہ ہی نہیں، میرا ریوڑ کون ساہے، مجھے کس کے ساتھ جانا ہے، یہی حالت منافق کی ہے، نہ وہ کافروں کےساتھ کھڑا ہوتا ہے اور نہ ہی مسلمانوں کا ساتھ اختیار کرتا ہے، تعير: آتی جاتی ہے، گھومتی پھرتی ہے۔