وعن ابن عمر قال: قلما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوم من مجلس حتى يدعو بهؤلاء الدعوات لاصحابه: «اللهم اقسم لنا من خشيتك ما تحول به بيننا وبين معاصيك ومن طاعتك ما تبلغنا به جنتك ومن اليقين ما تهون به علينا مصيبات الدنيا ومتعنا باسماعنا وابصارنا وقوتنا ما احييتنا واجعله الوارث منا واجعل ثارنا على من ظلمنا وانصرنا على من عادانا ولا تجعل مصيبتنا في ديننا ولا تجعل الدنيا اكبر همنا ولا مبلغ علمنا ولا تسلط علينا من لا يرحمنا» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَلَّمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ مِنْ مَجْلِسٍ حَتَّى يَدْعُوَ بِهَؤُلَاءِ الدَّعَوَاتِ لِأَصْحَابِهِ: «اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا تَحُولُ بِهِ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ وَمِنَ الْيَقِينِ مَا تُهَوِّنُ بِهِ عَلَيْنَا مُصِيْبَاتِ الدُّنْيَا وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا وَاجْعَلْهُ الْوَارِثَ مِنَّا وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا وَلَا تَجْعَلْ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلَا تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لَا يَرْحَمُنَا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر اوقات کسی مجلس سے اٹھنے سے پہلے ان کلمات کے ذریعے اپنے صحابہ کے لئے دعا کیا کرتے تھے: ”اے اللہ! ہمیں اپنی خشیت سے ایسا حصہ عطا فرما جو ہمارے اور تیری معاصی و نافرمانی کے درمیان حائل ہو جائے، اور اپنی اطاعت سے ایسا حصہ عطا فرما جس کے ذریعے تو ہمیں اپنی جنت میں پہنچا دے، اور یقین سے ایسا حصہ نصیب فرما جو دنیا کے مصائب ہم پر آسان کر دے، جب تک تو ہمیں زندہ رکھے، ہمارے کانوں، ہماری آنکھوں اور ہماری قوت سے بہرہ مند فرما، اور ان (مذکورہ چیزوں) کو باقی رکھنا، جو شخص ہم پر ظلم کرے اس پر ہمارا غضب نازل فرما، ہمارے دین (میں کمی) کے بارے میں ہم پر کوئی مصیبت نازل نہ فرما، دنیا کو ہمارا سب سے بڑا مقصد بنا نہ ہمارے علم کی غایت و انتہا بنا، اور ہم پر کسی ایسے کو مسلط نہ فرما جو ہم پر رحم نہ کرے۔ “ ترمذی۔ اور فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (3502) [و صححه الحاکم (528/1) ووافقه الذهبي وسنده ضعيف] ٭ عبيد الله بن زحر ضعيف.»