وعن سهل بن الحنظلية قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سال وعنده ما يغنيه فإنما يستكثر من النار» . قال النفيلي. وهو احد رواته في موضع آخر: وما الغنى الذي لا ينبغي معه المسالة؟ قال: «قدر ما يغديه ويعشيه» . وقال في موضع آخر: «ان يكون له شبع يوم او ليلة ويوم» . رواه ابو داود وَعَنْ سَهْلِ بْنِ الْحَنْظَلِيَّةِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَأَلَ وَعِنْدَهُ مَا يُغْنِيهِ فَإِنَّمَا يَسْتَكْثِرُ مِنَ النَّارِ» . قَالَ النُّفَيْلِيُّ. وَهُوَ أَحَدُ رُوَاتِهِ فِي مَوْضِعٍ آخر: وَمَا الْغنى الَّذِي لَا يَنْبَغِي مَعَهُ الْمَسْأَلَةُ؟ قَالَ: «قَدْرُ مَا يُغَدِّيهِ وَيُعَشِّيهِ» . وَقَالَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: «أَنْ يَكُونَ لَهُ شِبَعُ يَوْمٍ أَوْ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سہیل بن خظلیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس قدر ملکیت رکھنے کے باوجود سوال کرے جو اسے سوال کرنے سے بے نیاز کر سکتی ہو تو پھر وہ آگ میں اضافہ کر رہا ہے۔ “ اور نفیلی جو اس روایت کے راوی ہیں، انہوں نے دوسرے مقام پر فرمایا: وہ مال کی کتنی مقدار ہے جس کے ہوتے ہوئے سوال کرنا مناسب نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو صبح و شام کھانے کی مقدار۔ “ اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ”جس کے پاس اتنا مال ہو جو اس کی صبح شام کی شکم سیری کے لیے کافی ہو۔ “ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (1629)»