وعن عائشة رضي الله عنها قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من تكلم في شيء من القدر سئل عنه يوم القيامة ومن لم يتكلم فيه لم يسال عنه» . رواه ابن ماجه وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ تَكَلَّمَ فِي شَيْءٍ مِنَ الْقَدَرِ سُئِلَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنْ لَمْ يَتَكَلَّمْ فِيهِ لم يسْأَل عَنهُ» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے تقدیر کے متعلق ذرا بھی بات کی تو روز قیامت اس سے اس کے متعلق باز پرس ہو گی اور جس نے اس کے متعلق کوئی بات نہ کی اس سے باز پرس نہیں ہو گی۔ “اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (84) ٭ و قال البوصيري: ’’ھذا إسناده ضعيف لا تفاقھم علٰي ضعف يحيي بن عثمان، وشيخه (يحيي بن عبد الله بن أبي مليکة) لين الحديث.‘‘»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 114
تخریج الحدیث: [سنن ابن ماجه 84]
تحقیق الحدیث: اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ ● اسے ابوبکر الآجری نے بھی کتاب الشریعہ [ص235 ح531] میں یحییٰ بن عثمان کی سند سے بیان کیا ہے۔ ◄ اس کا راوی یحییٰ بن عثمان التیمی القرشی ابوسہل البصری ضعیف ہے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب: 7606] ◄ علامہ بوصیری نے کہا کہ اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ [زوائد ابن ماجه: 84] ◄ یحییٰ بن عثمان کا استاد یحییٰ بن عبداللہ بن ابی ملیکہ لین الحدیث (ضعیف) ہے۔ [تقريب التهذيب: 7587]