ہداب بن خالد ازدی نے کہا: ہمیں ہمام نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی، انھوں نے عطاء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھ سے (سنی ہوئی باتیں) مت لکھو، جس نے قرآن مجید (کے ساتھ اس کے علاوہ میری کوئی بات (حدیث) لکھی وہ اس کو مٹا دے، البتہ میری حدیث (یاد رکھ کرآگے) بیان کرو، اس میں کوئی حرج نہیں، اور جس نے مجھ پر۔ہمام نے کہا: میرا خیال ہے کہ انھوں (زید بن اسلم) نے کہا: جان بوجھ کر جھوٹ باندھاوہ ا پنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔"
حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میری باتیں نہ لکھو اورجس نے قرآن کے علاوہ مجھ سے کچھ سیکھاہے،تو اسے مٹادے اور مجھ سے بیان کرو،میری حدیثیں سناؤ،اس میں کوئی تنگی نہیں ہے اور جس نے مجھ پر جھوٹ بولا،میری طرف اپنی طرف سے کوئی بات منسوب کی،ہمام کہتے ہیں،میرے خیال میں آپ نے جان بوجھ کر کالفظ کہا،تو وہ ا پنا ٹھکانا دوزخ بنالے۔"
صحيح مسلم مختصر مع شرح نووي: تحت الحديث صحيح مسلم 7510
� تشریح: قاضی عیاض نے کہا: سلف صحابہ اور تابعین میں بڑا اختلاف تھا علم کے لکھنے میں۔ بہتوں نے اس کو مکروہ رکھا لیکن اکثر نے جائز رکھا پھر اس کے بعد اجماع ہو گیا اس کے جواز پر اور اختلاف جاتا رہا اور اس حدیث میں جو ممانعت ہے وہ محمول ہے اس شخص پر جو اچھا حافظہ رکھتا ہو لیکن لکھنے میں اس کو ڈر ہو کتابت پر اعتماد کرنے کا اور جس کا حافظہ اچھا نہ ہو اس کو لکھنے کی اجازت ہے اور حکم دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوشاہ کے لیے لکھنے کا اور اسی قسم میں سے صحیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اور کتاب عمرو بن حزم کی اور کتاب صدقہ کی اور زکوٰۃ کی۔ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ لکھتے تھے اور میں لکھتا نہ تھا اور بعض نے کہا کہ یہ حدیث منسوخ ہے ان حدیثوں سے اور یہ اس وقت کی حدیث ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈر تھا کہ کہیں قرآن اور حدیث نہ مل جائے۔ جب اس سے اطمینان ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی کتابت کی اور بعض نے کہا کہ مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ قرآن اور میری حدیث ایک کتاب میں ملا کر نہ لکھوتا کہ پڑھنے والے کو شبہ نہ ہو۔ (نووی رحمہ اللہ)
مختصر شرح نووی، حدیث/صفحہ نمبر: 7510
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7510
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حدیث کو لکھنے کی ممانعت اس صورت میں تھی، جبکہ قرآن وحدیث کو یکجا لکھا جارہا تھا اور دونوں کے باہمی اختلاط اور آمیزش کا خطرہ تھا، یایہ حکم اس وقت تھا، جب کتابت کے اسباب اور وسائل کی قلت تھی اور قرآن اور حدیث دونوں کو لکھنا دقت اور پریشانی کاباعث تھا، کیونکہ لکھنے والے(کاتب) اور کاغذ عام نہ تھے، نیز لکھنے کی ممانعت اس لیے بھی تھی کہ عربوں کا حافظہ بہت تیز تھا اور سب چیزوں کو زبانی یاد رکھتے تھے، اس لیے ان کو یاد رکھنے کا حکم دیا، تاکہ قوت حافظہ عدم استعمال کی وجہ سےضائع نہ ہوجائے، اس لیے آپ نےاحادیث بیان کرنے کی تلقین فرمائی کہ حَدِثوا میری باتیں بیان کرو۔