حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن ابي عبيد مولى ابن ازهر، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " يستجاب لاحدكم ما لم يعجل، فيقول: قد دعوت فلا او فلم يستجب لي ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يُسْتَجَابُ لِأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ، فَيَقُولُ: قَدْ دَعَوْتُ فَلَا أَوْ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي ".
امام مالک نے ابن شہاب سے، انہوں نے ابن ازہر کے آزاد کردہ غلام ابوعبید سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کسی شخص کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلد بازی کرتے ہوئے یہ نہیں کہتا: میں نے دعا کی، لیکن میرے حق میں قبول نہیں ہوتی۔۔ یا نہیں ہوئی۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تمھاری دعائیں اس وقت تک قبول ہوتی ہیں جب تک جلد بازی سے کام نہ لیا جائے۔ وہ کہنے لگتا ہے، میں نے دعا کی تھی مگر وہ قبول ہی نہیں ہوئی۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6934
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: بندہ فقیر اور محتاج ہے اور اللہ مستغنی اور بے نیاز ہے، اس لیے بندے کا کام ہے، ہمیشہ اس کے درکا فقیر بنارہے اور مانگتا رہے اور سمجھے یقینا دیر سویر میری دعا ضرور قبول ہوگی، کیونکہ یہ تو اللہ ہی جانتا ہے، اس کی دعا کس صورت میں اور کب پوری کرنی ہے، لیکن بندہ جب جلد بازی میں مایوس ہو کر دعا چھوڑ دیتا ہے تو وہ قبولیت کا استحقاق کھو دیتا ہے اور دعا کی قبولیت کی تین صورتیں ہیں، (1) دعا کرنے والا جو کچھ مانگتاہے، وہی مل جاتا ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بہتر چیز عطا فرمادیتا ہے۔ (3) آخرت میں اس کے لیے اجرو ثواب جمع کر دیتا ہے، اس لیے دعا چھوڑ بیٹھنا، انتہائی محرومی کی بات ہے۔