فضیل نے عمارہ بن قعقاع سے، انہوں نے ابوزرعہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سے (میری طرف سے) حسن معاشرت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ، پھر جو تمہارا زیادہ قریبی (رشتہ دار) ہو، (پھر جو اس کے بعد) تمہارا قریبی ہو۔" (اسی ترتیب سے آگے حق دار بنیں گے۔)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ایک آدمی نے پوچھا،یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !حسن رفاقت کا حقدارکون ہے؟آپ نے فرمایا:"تیری ماں پھر تیری ماں پھر تیری ماں،پھر تیرا باپ،پھر درجہ بدرجہ تیرے رشتہ دار۔"
نعم وأبيك لتنبأن أمك قال ثم من قال ثم أمك قال ثم من قال ثم أمك قال ثم من قال ثم أبوك تصدق وأنت صحيح شحيح تأمل العيش وتخاف الفقر لا تمهل حتى إذا بلغت نفسك ها هنا قلت مالي لفلان ومالي
نعم وأبيك لتنبأن أمك قال ثم من قال ثم أمك قال ثم من قال ثم أمك قال ثم من قال ثم أبوك تصدق وأنت صحيح شحيح تأمل العيش وتخاف الفقر لا تمهل حتى إذا بلغت نفسك ها هنا قلت مالي لفلان ومالي
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6501
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوا، والدین کے بعد، والدین کے بھائی بہن اور اس کے دوسرے رشتہ دار و عزیز درجہ بدرجہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق حسن سلوک کے حقدار ہیں۔ اس لیے ہر صاحب حق کو اس کا حق ملنا چاہیے، تزاحم اور ٹکراؤ کی صورت میں والدین کا حق مقدم ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6501
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2706
´زندگی میں بخیلی اور موت کے وقت فضول خرچی سے ممانعت۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بتائیے کہ لوگوں میں کس کے ساتھ حسن سلوک کا حق مجھ پر زیادہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، تمہارے والد کی قسم، تمہیں بتایا جائے گا، (سب سے زیادہ حقدار) تمہاری ماں ہے“، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تمہاری ماں ہے“، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر بھی تمہاری ماں ہے“، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2706]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھانا جائز ہے۔
(2) جواب دینے سے پہلے تمہید کے طور پر کوئی بات کہنے سے سائل جواب کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جاتا ہے، جیسے آپ کا یہ فرمانا: ”میں تجھے ضرور بتاؤں گا۔“
(3) قسم صرف اللہ کی ذات کی کھانا جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ ارشاد نبوى ہے: ”اللہ تعالی تمہیں باپوں کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے، پس جو شخص قسم کھائے، وہ اللہ کی قسم کھائے، یا خاموش رہے۔“(صحیح البخاري، الأدب، باب من لم یر إکفار من قال ذلک متأولا أوجاہلاً، حدیث: 6108) اس لیے اس حدیث میں’باپ کی قسم‘ سے مراد’باپ کے رب کی قسم ہے۔ عربی زبان میں قرینے کی موجودگی میں الفاظ حذف کردینا عام ہے۔ جیسے(واسئال القریة) ”بستی سے پوچھیے۔“ (یوسف12؍82) ، یعنی (واسئال اهل القریة) ”بستی کے باشندوں سے پوچھیے۔“
(4) تاہم ماں اگر کسی ایسے کام کا حکم دے جو شرعاً ممنوع یا مکروہ ہو اور باپ اس غلط کام سے منع کررے تو باپ کا حکم ماننا ضروری ہے اور یہ ماں سے حسن سلوک کے منافی نہیں۔
(5) صحت کی حالت میں صدقہ زیادہ افضل ہے کیونکہ اس وقت دل میں مال کی محبت زیادہ شدید ہوتی ہے اور اسے خرچ کرنا اس لیے مشکل بھی محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں حالات خراب ہونے کاخطرہ محسوس ہوتا ہے جبکہ موت کے وقت یہ خیال ہوتا ہےکہ اب میں اسے استعمال تو نہیں کرسکوں گا، لہٰذا صدقہ کرکے فائدہ حاصل کرلوں۔ اس وقت دل میں مال کی محبت نہیں رہتی۔
(6) زندگی کے آخری ایا م میں صدقہ کرنا شرعاً درست ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں بھی صدقے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2706
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3658
´ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حسن سلوک (اچھے برتاؤ) کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری ماں“، پھر پوچھا: اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری ماں“، پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا باپ“، پھر پوچھا: اس کے بعد کون حسن سلوک (اچھے برتاؤ) کا سب سے زیادہ مستحق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر جو ان کے بعد تمہارے زیادہ قریبی رشتے دار ہوں، پھر اس کے بعد جو قریبی ہوں۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3658]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) والدین حسن سلوک کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ جب اولاد کمزور ہوتی ہے تو والدین اس کی ہر ضرورت پوری کرتے ہیں اسی طرح جب والدین بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو جائیں تو اولاد کا فرض بنتا ہے کہ ان کی خدمت کرے اور ان کی ہر ضرورت پوری کرے۔
(2) والد کی نسبت والدہ حسن سلوک کی زیادہ مستحق ہے کیونکہ اس نے بچے کی پرورش میں زیادہ مشقت برداشت کی ہوتی ہے اور نرم دل ہونے کی وجہ سے اولاد سے اپنا مطالبہ زور دے کر تسلیم نہیں کرا سکتی اس لیے اس کی ضروریات بلا مطالبہ پوری ہونی چاہییں۔
(3) بعض لوگ نقد رقم دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ والدین کا حق ادا ہو گیا۔ یہ درست نہیں اگر رہائش ان سے دور ہے تب بھی خط و کتابت کے ذریعے سے ان سے رابطہ رکھنا ان کی خیریت دریافت کرتے رہنا، ان سے ملاقات کے لیے جانا، ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنا، اپنے معاملات میں ان سے مشورہ لینا، انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرنا اور اس طرح کے دوسرے معاملات ضروری ہیں۔ یہ والدین کی جذباتی اور نفسیاتی ضروریات ہیں جن کا پورا کرنا جسمانی ضروریات پورا کرنے سے بھی زیادہ اہم ہے۔
(4) جتنا زیادہ قریبی تعلق ہو اتنا اس کا حق زیادہ ہوتا ہے مثلاً: سگے بہن بھائیوں کا حق چچا زاد اور ماموں زاد وغیرہ سے زیادہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3658
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5971
5971. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تیری ماں“ تیری ماں۔ اس نے تیسری بار عرض کی: پھر کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تیری ماں“ اس نے کہا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: ”پھر تمہارا باپ ہے۔“ ابن شبرمہ اور یحییٰ بن ایوب نے کہا کہ ہمیں بھی ابو زرعہ نے اسی طرح بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5971]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ ماں کا درجہ باپ سے تین حصہ زیادہ ہے کیونکہ صنف نازک ہے، اسے اپنے جوان بیٹے کا بڑا سہارا ہے لہٰذا وہ بہت ہی بڑا حق رکھتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5971
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5971
5971. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تیری ماں“ تیری ماں۔ اس نے تیسری بار عرض کی: پھر کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تیری ماں“ اس نے کہا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: ”پھر تمہارا باپ ہے۔“ ابن شبرمہ اور یحییٰ بن ایوب نے کہا کہ ہمیں بھی ابو زرعہ نے اسی طرح بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5971]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ماں کا درجہ باپ سے تین گنا زیادہ ہے کیونکہ ماں اس کی تربیت و پرورش میں زیادہ تکلیف ومشقت برداشت کرتی ہے۔ قرآن کریم میں اس کے متعلق واضح اشارہ ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ہم نے انسان کو اپنے والدین سے حسن سلوک کی وصیت کی ہے۔ اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے اسے اٹھائے رکھا اور دوسال اس کے دودھ چھوڑنے میں لگے۔ “(لقمان 31: 14)(2) ماں کی تین نمایا خدمات ہیں: ایک حمل اٹھائے پھرنے کی سختیاں، دوسرے جنم کے وقت جان کی بازی کھیلنا، تیسرے پورے دوسال تک اپنے خون کو دودھ بنا کر رضاعت کی خدمت انجام دینا۔ ان خدمات میں باپ شریک نہیں ہے، اس لیے خدمت گزاری میں ماں کے تین حصے اور باپ کا ایک حصہ ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5971