حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، اخبرنا عبدة بن سليمان ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن عبد الله ، انه قال: " ومن يغلل يات بما غل يوم القيامة سورة آل عمران آية 161، ثم قال على: قراءة من تامروني، ان اقرا، فلقد قرات على رسول الله صلى الله عليه وسلم بضعا وسبعين سورة، ولقد علم اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم اني اعلمهم بكتاب الله، ولو اعلم ان احدا اعلم مني لرحلت إليه، قال شقيق: فجلست في حلق اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، فما سمعت احدا يرد ذلك عليه ولا يعيبه ".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ قَالَ: " وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ سورة آل عمران آية 161، ثُمَّ قَالَ عَلَى: قِرَاءَةِ مَنْ تَأْمُرُونِي، أَنْ أَقْرَأَ، فَلَقَدْ قَرَأْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضْعًا وَسَبْعِينَ سُورَةً، وَلَقَدْ عَلِمَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَعْلَمُهُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، وَلَوْ أَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا أَعْلَمُ مِنِّي لَرَحَلْتُ إِلَيْهِ، قَالَ شَقِيقٌ: فَجَلَسْتُ فِي حَلَقِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَرُدُّ ذَلِكَ عَلَيْهِ وَلَا يَعِيبُهُ ".
شقیق نے حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے پڑھا: " ”اور جو کوئی چیز چھپا رکھے گا، وہ اس کو قیامت کے دن لائے گا“(سورۃ: آل عمران: 161) پھر کہا کہ تم مجھے کس شخص کی قرآت کی طرح قرآن پڑھنے کا حکم کرتے ہو؟ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ستر سے زیادہ سورتیں پڑھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب یہ جانتے ہیں کہ میں ان سب میں اللہ کی کتاب کو زیادہ جانتا ہوں اور اگر میں جانتا کہ کوئی مجھ سے زیادہ اللہ کی کتاب کو جانتا ہے تو میں اس شخص کی طرف سفر اختیار کرتا۔ شفیق نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے حلقوں میں بیٹھا ہوں، میں نے کسی کو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اس بات کو رد کرتے یا ان پر عیب لگاتے نہیں سنا۔
شقیق رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں،حضرت عبداللہ نے کہا،"جوخیانت کرے گا وہ قیامت کے دن خیانت کردہ چیز کولے کر حاضر ہوگا،(آل عمران آیت نمبر 161) پھر کہا کہ تم مجھے کس شخص کی قرآت کی طرح قرآن پڑھنے کا حکم کرتے ہو؟ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ستر سے زیادہ سورتیں پڑھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب یہ جانتے ہیں کہ میں ان سب میں اللہ کی کتاب کو زیادہ جانتا ہوں اور اگر میں جانتا کہ کوئی مجھ سے زیادہ اللہ کی کتاب کو جانتا ہے تو میں اس شخص کی طرف سفر اختیار کرتا۔ شفیق نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے حلقوں میں بیٹھا ہوں، میں نے کسی کو سیدنا عبداللہ ؓ کی اس بات کو رد کرتے یا ان پر عیب لگاتے نہیں سنا۔
عندك لبن ؟ ، فقلت : نعم ، ولكني مؤتمن قال : فهل عندك شاة لم ينز عليها الفحل ؟ ، قلت : نعم ، فأتيته بشاة شطور ، قال سلام : والشطور التى ليس لها ضرع ، فمسح النبى صلى الله عليه وسلم مكان الضرع ، وما كان لها ضرع ، فإذا الضرع حافل مملوء لبنا ، فأتيت النبى صلى الله عليه وسلم بصخرة منقورة ، فحلب ، ثم سقى أبا بكر وسقاني ، ثم قال للضرع : اقلص فقلص ، فرجع كما كان ، فأنا رأيت هذا من رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ، فقلت : يا رسول الله علمني ، فمسح رأسي ، وقال : بارك الله فيك ، فإنك غلام معلم ، فأسلمت وأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فبينما نحن عنده على حراء إذ أنزلت عليه سورة والمرسلات عرفا فأخذتها ، وإنها رطبة من فيه ، فأخذت من فى رسول الله صلى الله عليه وسلم سبعين سورة وأخذت بقية القرآن من أصحابه
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6332
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب اسلام عرب سے نکل کر روم اور ایران کے دور دراز علاقوں تک پہنچ گیا اور مختلف صحابہ کرام، مختلف علاقوں میں پہنچے اور انہوں نے وہاں کے لوگوں کو اپنی اپنی قراءت کے مطابق قرآن مجید کی تعلیم دی تو لوگوں میں قرآن کریم کی قراءتوں کے بارے میں اختلاف رونما ہونے لگا، جس کی اطلاع حضرت حذیفہ بن یمان نے حضرت عثمان کو دی تو حضرت عثمان نے جلیل القدر صحابہ کرام کے مشورہ سے اس اختلاف سے بچنے کا یہ حل نکالا کہ تمام لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیا جائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں جمع کردہ صحیفوں کو ایک مصحف میں منتقل کر کے، اس کی مختلف نقلیں تیار کروائیں اور یہ مکمل معیاری نسخہ مختلف مقامات پر رکھوا دیا اور لوگوں کو کہا، اپنے نسخے اس نسخہ کے مطابق تیار کریں اور اپنے انفرادی مصحف جن کی ترتیب الگ الگ ہے، وہ نذر آتش کر دیں، تاکہ مصحف کی ترتیب اور رسم الخط یکساں ہو جائے، لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے، کیونکہ وہ کہتے تھے، میں نے ستر (70) سے زیادہ سورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہیں، اس لیے میں اپنا مصحف کیوں ختم کروں اور اس کے لیے انہوں نے اپنے کوفی تلامذہ کو بھی یہی ترغیب دی کہ وہ اپنے مصحف چھپا لیں اور حضرت عثمان کے حوالہ نہ کریں اور اس کے لیے مذکورہ بالا آیت پیش کی کہ خلیفہ کو مصحف حوالہ نہ کرنا خیانت ہو گی اور ہم یہی خیانت قیامت کے دن حاضر کریں گے، بہرحال امت نے حضرت عثمان کے رسم الخط اور ترتیب کو قبول کیا، آج وہی رسم الخط اور ترتیب قائم ہے، اگرچہ عجمیوں کی سہولت کے لیے اس میں نقطوں اور حرکات و سکنات رکوع، پارے اور رموز اوقاف کا اضافہ کیا گیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6332
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5000
5000. سیدنا شقیق بن سلمہ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے ستر سے زیادہ سورتیں خود رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سن کر یاد کی ہیں۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ان سب سے زیادہ قرآن کریم کا جاننے والا ہوں۔ حالانکہ میں ان سے بہتر نہیں ہوں۔ شقیق کہتے ہیں کہ میں لوگوں کے مجمع میں بیٹھتا تا کہ لوگوں کے تاثرات معلوم کروں لیکن میں نے کسی سے اس بات کی تردید نہیں سنی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5000]
حدیث حاشیہ: حضرت عبداللہ بن مسعود نے یہ اپنا واقعی حال بیان فرمایا گو اس میں فضیلت نکلی ان کی نیت غرور اور تکبر کی نہ تھی ہاں فخر و غرور سے ایسا کہنا منع ہے۔ إنمَا الأعمالُ بِالنیاتِ۔ شقیق کا قول محل غور ہے کیونکہ ابن ابی داؤد نے زہری سے نکالا ہے انہوں نے کہا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول کو مجاہد نے پسند نہیں کیا (وحیدی) سچ ہے۔ ﴿و فَوقَ کُل ذِی عِلم عَلِیم﴾
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5000
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5000
5000. سیدنا شقیق بن سلمہ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے ستر سے زیادہ سورتیں خود رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سن کر یاد کی ہیں۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ان سب سے زیادہ قرآن کریم کا جاننے والا ہوں۔ حالانکہ میں ان سے بہتر نہیں ہوں۔ شقیق کہتے ہیں کہ میں لوگوں کے مجمع میں بیٹھتا تا کہ لوگوں کے تاثرات معلوم کروں لیکن میں نے کسی سے اس بات کی تردید نہیں سنی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5000]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا حال واقعی بیان کیا ہے۔ ان کی نیت میں فخر و غرور کا اظہار نہ تھا جیسا کہ خود انھوں نے وضاحت فرمائی ہے کہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے افضل نہیں ہوں۔ البتہ شقیق رحمۃ اللہ علیہ کا قول محل نظر ہے کیونکہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بات کو پسند نہ کیا ممکن ہے کہ جہت اختلاف کی وجہ سے ایسا ہو۔ 2۔ یقیناً حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کریم کے عالم اور بہترین قاری تھے لیکن انھوں نے مصحف عثمانی کے مقابلے میں اپنے مصحف کو باقی رکھنے پر اصرار کیا۔ اس بات کو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پسند نہیں فرمایا: حالانکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مصحف پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اتفاق ہو چکا تھا۔ (فتح الباري: 62/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5000