● صحيح البخاري | 3596 | عقبة بن عامر | إني فرطكم وأنا شهيد عليكم إني والله لأنظر إلى حوضي الآن أعطيت خزائن مفاتيح الأرض وإني والله ما أخاف بعدي أن تشركوا ولكن أخاف أن تنافسوا فيها |
● صحيح البخاري | 6426 | عقبة بن عامر | إني فرطكم وأنا شهيد عليكم الله لأنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض أو مفاتيح الأرض الله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي ولكني أخاف عليكم أن تنافسوا فيها |
● صحيح البخاري | 4085 | عقبة بن عامر | إني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكني أخاف عليكم أن تنافسوا فيها |
● صحيح البخاري | 6590 | عقبة بن عامر | إني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكن أخاف عليكم أن تنافسوا فيها |
● صحيح البخاري | 1344 | عقبة بن عامر | إني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكن أخاف عليكم أن تنافسوا فيها |
● صحيح مسلم | 5976 | عقبة بن عامر | إني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكن أخاف عليكم أن تتنافسوا فيها |
● سنن النسائى الصغرى | 1956 | عقبة بن عامر | إني فرط لكم وأنا شهيد عليكم |
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5976
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
صلاته علی الميت:
آپ نے اپنی زندگی کے آخری دور میں،
تمام شہداء کے لیے،
میت کی طرح انتہائی اخلاص اور تضرع سے دعا فرمائی اور یہ دعا مسجد میں کی گئی،
اس لیے نماز سے فراغت کے بعد آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اگلی باتیں ارشاد فرمائیں اور شہدائے اُحد کی قبور تو میدان اُحد میں ہی تھیں،
وہاں منبر کہاں سے آ گیا،
اس لیے علامہ انور شاہ نے لکھا ہے کہ روایات کے تتبع اور تلاش سے مجھ پر یہ حقیقت کھلی ہے کہ آپ نے یہ دعا اپنے وفات کے سال مسجد نبوی میں کی،
اس طرح آپ نے زندوں کی طرح مردوں کو بھی الوداع فرمایا،
(فیض الباری ج 1 ص 478)
۔
جنگ اور تین ہجری کو ہوئی اور آپ کی وفات ربیع الاول 11ھ میں ہوئی،
نماز اتنے عرصہ کے بعد تو نہیں پڑھی جاتی۔
انی قد اعطيت مفاتيح خزائن الارض او مفاتيح الارض:
مجھے زمین کے خزانوں کی یا زمین کی کنجیاں دے دی گئی ہیں،
آپ کی اس پیش گوئی کے مطابق مسلمانوں نے تمام علاقوں کو فتح کیا اور کسریٰ و قیصر کے خزانوں کے مالک بنے اور اب بھی ہر قسم کے قدرتی اسباب و ذرائع معیشت مسلمان ملکوں میں موجود ہیں،
لیکن بدقسمتی سے مسلمان ان سے صحیح فائدہ نہیں اٹھا رہے۔
ما أخاف عليكم ان تشركوا بعدی:
مجھے یہ اندیشہ نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے،
مقصد یہ ہے کہ آپ کی امت مجموعی اعتبار سے اسلام سے برگشتہ نہیں ہو گی یا جاہلیت کے دور والا شرک دوبارہ پیدا نہیں ہو گا کہ لوگ شرک کو اپنا دین قرار دیں،
اگر کچھ لوگ شرک میں مبتلا ہو جائیں تو وہ اس کو شرک تسلیم ہی نہیں کرتے اور اسلام کو ہی اپنا دین تصور کرتے ہیں اور انفرادی طور پر اگر کچھ لوگ مرتد ہوئے ہیں تو اکثریت کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اور بقول امام ابی اس کا مخاطب صحابہ کرام ہی کہ ان کے بارے میں یہ خطرہ نہ تھا۔
(تکملہ ج 4 ص 505)
لكن اخاف عليكم ان تنافسوا فيها:
لیکن دنیا کے خزانوں اور دنیوی مال و دولت میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنے کا اندیشہ ہے اور یہ چیز باہمی حسد و بغض اور دشمنی کا باعث بنتی ہے،
جس سے اخلاق اور اعمال میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور آپ نے جس چیز کے اندیشے کا اظہار فرمایا تھا،
آج وہی چیز امت کی تباہی اور بربادی کا باعث بن رہی ہے،
دین و ایمان اتفاق و اتحاد ہر چیز اس کی بھینٹ چڑھ رہی ہے،
جیسا کہ اگلی روایت میں اس کی صراحت آ رہی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5976
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4085
´ارشاد نبوی کہ احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے`
«. . . عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ , ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ:" إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ , وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ , أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ , وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا . . .»
”. . . عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے حوض (حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا (آپ حوض کوثر نے یوں فرمایا) «مفاتيح الأرض» یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ (دونوں جملوں کا مطلب ایک ہی ہے)۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي: 4085]
باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4085کا باب: «بَابُ أُحُدٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ:»
ترجمہ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے احد پہاڑ کی فضیلت ذکر فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ”احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے۔“
اور ذیل میں تین احادیث ذکر فرمائیں، دو احادیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، جس میں واضح طور پر باب سے حدیث کی مناسبت موجود ہے، تیسری حدیث جو کہ سیدنا عقبہ بن عامر الجھنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس میں باب سے مناسبت لفظ «أحد» کے ساتھ ہے، یعنی ترجمۃ الباب میں ”احد“ کا ذکر ہے اور حدیث میں بھی لفظ ”احد“ مذکور ہے، لہٰذا نسبت لفظی موجود ہے۔
چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة للترجمة لا تاتي الا من حديث إن احد مذكور فيه» [عمدة القاري للعيني: 438/17]
”یعنی ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت لفظ «أحد» میں مذکور ہے۔“
لہٰذا یہ مناسبت ظاہری ہے، یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کہ ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ہیں پہلا لفظ «أحد» اور دوسرا جزء لفظ «يحبنا» علامہ عینی اور دیگر شارحین کو وضاحت سے لفظ «أحد» کی مناسبت واضح ہوئی، مگر ترجمۃ الباب کا دوسرا جزء لفظ «يحبنا» سے کوئی مناسبت دکھلائی نہیں دیتی، لیکن اگر غور کیا جائے تو «يحبنا» کی مناسبت حدیث میں موجود ہے، مگر بہت گہری سوچ کے بعد، امام بخاری رحمہ اللہ کی فقاہت پر داد دینی چاہیے، آپ نے بڑے ہی دقیق انداز میں ایک بہت باریک چیز کی طرف اشارہ فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے، اس میں حوض کوثر کا ذکر ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حوض کوثر سے وہی حضرات پانی پئیں گے جو جنتی ہوں گے، جن کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اتباع سے گہرا ہو گا، کیونکہ سنت سے دور رہنے والے اور بدعتی کو یہ پانی نصیب نہ ہو گا، لہٰذا حوض کوثر، جنت کی بہت بڑی نعمت ہے، بعین اسی طرح یہ احد پہاڑ کا تعلق بھی آخرت کے ساتھ قائم ہے، وہ کس طرح؟
امام ابن شبہ رحمہ اللہ ”تاریخ المدینہ“ میں مرفوعاً ذکر فرماتے ہیں کہ ”یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے“ مزید روایت میں اضافہ ہے کہ:
«ان احدا هذا لعلي باب من أبواب الجنة .» اس کی سند میں یحییٰ بن عبداللہ متروک ہے۔ مگر مسند احمد کی حدیث اس مسئلے پر شاہد ہے۔
مذکورہ روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ احد پہاڑ کا بھی تعلق جنت سے ہے، بعین اسی طرح جس طرح سے حوضِ کوثر کا تعلق بھی جنت ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أن الحب من الجانبين على حقيقته وظاهره لكون أحد من جبال الجنة كما يثبت فى حديث أبى عبس بن جبر مرفوعا ”جبل أحد يحبنا و نحبه و هو من جبال الجنة“.» [فتح الباري لابن حجر: 322/7]
حقیقتاً اور ظاہراً یہ محبت (پہاڑ کی) دونوں جانب ہے، (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس سے محبت ہے، اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے محبت کرتا ہے، یہ پہاڑ احد کا جنت کے پہاڑوں میں سے ہے، جیسا کہ حدیث مروی ہے، ابوعبس بن جبر سے مرفوعاً ”یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے اور وہ (احد) جنت کے پہاڑوں میں سے ہے۔“
حافظ صاحب کے اس بیان سے اور پیش کردہ حدیث سے ہماری بیان کی ہوئی مناسبت میں مزید تقویت حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اب ترجمۃ الباب کا دوسرا جزء «يحبنا» سے حدیث کی مناسبت واضح ہوئی کہ جس طرح حدیث کی اتباع اور بدعت سے بچنے والا ہی حوض کوثر سے پانی پیئے گا، بعین اسی طرح سے حدیث سے محبت رکھنے والا ہی احد پہاڑ سے محبت رکھے گا، لہٰذا احد پہاڑ کی محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے محبت کی دلیل ہے اور جو شخص سنت کی اتباع اور اس کی محبت میں اپنی زندگی بسر کرے گا تو یقیناً وہ حوض کوثر سے مستفید ہو گا، لہٰذا یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
فائدہ:
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ امت محمدیہ کبھی بھی شرک میں ملوث نہیں ہو گی، چاہے وہ سجدے کرے، چاہے وہ منت و مرادیں قبر والوں سے وابستہ رکھے، الغرض کسی بھی حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی شرک میں مبتلا نہ ہوں گے اور وہ اپنے اس موقف کی تائید میں مذکورہ بالا حدیث ”اللہ کی قسم میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم شرک کرو گے“ سے استدلال کو اخذ کرتے ہیں۔
محترم قارئین! اس حدیث سے پوری امت کو مواحد ثابت کرنا ایک بہت بڑی غلط فہمی یا پھر بہت بڑی خیانت ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ہرگز یہ مطلب اخذ نہیں ہوتا کہ امت جو چاہے کرتی پھرے، لیکن وہ کبھی بھی شرک کے جرم کا ارتکا ب نہیں کرے گی، اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، نمبر ایک، مذکورہ بالا حدیث کا تعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہے، اور دوم، قرآن مجید کی آیات اور دیگر احادیث واضح طور پر اس مسئلہ پر دال ہیں کہ امت سے کئی لوگ شرک کریں گے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
«وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّـهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ .» [12-يوسف:106]
”ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان رکھنے کے باوجود بھی مشرک ہیں۔“
سورۃ یوسف کی آیت قیامت تک کے مسلمانوں کو مخاطب کرتی ہے اور یہ آیت مبارکہ واضح کرتی ہے کہ مشرک مسلمانوں میں قیامت تک ہوں گے، بلکہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر غور کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مسئلے کو اپنی حدیث کے ذریعہ حل فرمایا ہے۔
چنانچہ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ اپنی سنن میں حدیث کا ذکر فرماتے ہیں:
«وان مما أتخوف صلى امتي أئمة مضلين، وستعبد قبائل من أمتي الأوثان وستلحق قبائل من أمتي بالمشركين .» [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن: 3952]
”مجھے اپنی امت کے بارے میں (سب سے زیادہ) گمراہ کرنے والے لیڈروں کا خوف ہے، میری امت کے کچھ قبیلے اوثان (بتوں) کی پوجا کریں گے اور میری امت کے کچھ قبائل مشرکوں سے مل جائیں گے۔“
اس حدیث میں امت کے بارے میں صاف طور پر واضح کیا گیا ہے کہ امت کے کچھ لوگ بتوں کی پوجا کریں گے، یاد رکھیں! بتوں کی پوجا سے مراد مورتیاں نہیں ہیں، بلکہ ہر وہ شے ہے، جسے اللہ کے علاوہ پوجا جائے، چاہے وہ بت ہو، قبر ہو، بزرگ ہو، وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق امت کے کچھ لوگ مشرک ہو جائیں گے، اب رہا مسئلہ کہ کن لوگوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی امت میں شرک کا ڈر نہیں ہے؟ اس کے بارے میں جواب دیتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وان أصحابه لا يشركون بعده فكان كذالك .» فتح الباري لابن حجر: 762/6
”(حدیث سے مراد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شرک نہ کریں گے، (لہٰذا حدیث کے مطابق) ایسا ہی ہوا تھا۔“
امام قرطبی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«أنه قد أمن على جملة أصحابه ان يبدلوا دين الإسلام بدين الشرك .» [المفهم 93/6]
”یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس بات سے امن دیا کہ وہ دین اسلام کو چھوڑ کر شرک کی طرف مائل ہوں، (یعنی صحابہ کبھی شرک کی طرف نہیں جائیں گے، یہ امن انہیں نصیب ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے)۔“
لہٰذا شرک سے امن صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو تھا، جو مکمل طور پر مواحد تھے اور جنہوں نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور اسی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جس حدیث میں شرک کرنے کی نفی ہے، اس حدیث سے مراد صحابہ ہیں جنہوں نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں ہی فوت ہوئے، لہٰذا اس سے مراد کلی امت نہیں ہے۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 51
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1956
´شہداء کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
عقبہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ سے باہر) نکلے، اور غزوہ احد کے شہیدوں پر نماز (جنازہ) پڑھی ۱؎ جیسے میت کی نماز جنازہ پڑھتے تھے، پھر منبر کی طرف پلٹے اور فرمایا: ”میں (قیامت میں) تمہارا پیش رو ہوں، اور تم پر گواہ (بھی) ہوں۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1956]
1956۔ اردو حاشیہ:
➊ بعض اہل علم نے ترجمہ یوں بھی کیا ہے، ”آپ نے احد والوں کا جنازہ پڑھا جیسے میت کا پڑھتے ہیں“ مگر یہ معنی محل نظر ہیں۔ اولاً: اس لیے کہ یہ واقعہ ان کی شہادت سے آٹھویں سال کا ہے۔ دفن کے موقع پر جنازہ نہ پڑھنا، سات سال تک نہ پڑھنا پھر آٹھویں سال پڑھنا تعجب کی بات ہے، نیز کوئی بھی آٹھویں سال جنازے کے جواز کا قائل نہیں حتی کہ احناف جو اس روایت سے شہید کے جنازے پر استدلال کرتے ہیں، وہ بھی اتنی دیر بعد جنازے کے قائل نہیں، لہٰذا اس روایت سے شہید کی نماز جنازہ کا استدلال واضح نہیں۔ ثانیاً: اگر پ نے جنازہ پڑھا تھا تو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی ”جیسے میت کا پڑھتے تھے“ جنازے میں تو صورت ہی ایک ہے۔ کیا میت کے علاوہ بھی جنازہ ہوتا ہے؟ لہٰذا صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بہت الحاح اور اگر یہ زاری سے دعائیں کیں، گویا کہ جنازہ پڑھ رہے ہیں۔ اس معنی میں کوئی اشکال بھی نہیں اور روایات میں تعارض بھی پیدا نہیں ہوتا۔ واللہ أعلم۔
➋ ”پیش رو“ اس میں اپنے مقام عظیم کی طرف اشارہ ہے۔ ”پیش رو“ سے مراد ہے جو قافلے سے آگے آگے انتظامات کرنے، مثلاً: رہائش، پانی اور دیگر ضروریات پر مقرر ہوتا ہے۔
➌ ”گواہی“ اللہ تعالیٰ ہر بات سے بذات خود واقف ہے مگر صحابہ کی تعظیم و تشریف کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے حق میں گواہی لی جائے گی جسے سب امتیں سنیں گی رضی اللہ عنہم اجمعین
➍ اس امت کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کہ ان کا نبی حوض کوثر پر ان کا انتظار کر رہا ہو گا۔ یہ اس امت کے لیے ایک بہت بڑی بشارت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1956
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1344
1344. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور شہدائے اُحد پر نماز پڑھی جس طرح اموات پر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، پھر منبر کی طرف لوٹے اورفرمایا:”میں تمھارا میرکاروں اور تم پر گواہ ہوں۔ اللہ کی قسم!میں اب اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین یا زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اپنے بعد تمھارے متعلق شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتا، لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1344]
حدیث حاشیہ:
شہید فی سبیل اللہ جو میدان جنگ میں مارا جائے اس پر نماز جنازہ پڑھنے نہ پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے۔
اسی باب کے ذیل میں ہر دو احادیث میں یہ اختلاف موجود ہے۔
ان میں تطبیق یہ ہے کہ دوسری حدیث جس میں شہدائے احد پر نماز کا ذکر ہے اس سے مراد صرف دعا اور استغفار ہے۔
امام شافعی ؒ کہتے ہیں:
کأنه صلی اللہ علیه وسلم دعا لهم واستغفرلهم حین قرب أجله بعد ثمان سنین کالمودع للأحیاء والأموات۔
(تحفة الأحوذي)
یعنی اس حدیث میں جو ذکر ہے یہ معرکہ احد کے آٹھ سال بعد کا ہے۔
یعنی آنحضرت ﷺ اپنے آخری وقت میں شہدائے احد سے بھی رخصت ہونے کے لیے وہاں گئے اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔
طویل بحث کے بعد المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں۔
قلت الظاهر عندي أن الصلوٰة علی الشهید لیست بواجبة فیجوز أن یصلی علیها ویجوز ترکها واللہ أعلم۔
یعنی میرے نزدیک شہید پر نماز جنازہ پڑھنا اور نہ پڑھنا ہر دو امور جائز ہیں۔
واللہ اعلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1344
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3596
3596. حضرت عقبہ بن عامر ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آپ باہر تشریف لائے اور شہدائے اُحد پرایسے نماز پڑھی جیسے فوت شدگان کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ منبر پر تشریف لاکر فرمانے لگے: ”میں تمہارا امیر کارواں اور منتظم بن کر جارہا ہوں اور میں تم پر گواہ بنوں گا۔ اللہ کی قسم!میں اپنے حوض کو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں، اللہ کی قسم! مجھے اپنے بعد تمہارے شرک کا ڈر نہیں لیکن یہ اندیشہ ضرور ہے کہ مبادا دنیا داری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3596]
حدیث حاشیہ:
آپ کی یہ پیش گوئی بالکل سچ ثابت ہوئی، مسلمانوں کو بڑا عروج حاصل ہوا، مگر یہ آپس کے رشک اور حسد سے خراب ہوگئے۔
تاریخ بتلاتی ہے کہ مسلمانوں کو خود اپنوں ہی کے ہاتھوں جو تکالیف ہوئیں وہ اغیار کے ہاتھوں سے نہیں ہوئیں۔
مسلمانوں کے لیے اغیار کی ریشہ دوانیوں اور برے منصوبوں میں بھی بیشتر غدار مسلمانوں کا ہاتھ رہا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3596
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6426
6426. حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ باہرتشریف لے گئے اور احد کے شہداء پر اس طرح نماز جنازہ پڑھی جس طرح میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ”میں تمھہارا ”میر سفر“ ہوں گا اور تم پر گواہی دوں گا۔ اللہ کی قسم! میں اب اپنا حوض دیکھ رہا ہوں۔ مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے تمہارے متعلق یہ اندیشہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے لیکن مجھے یہ خطرہ ضرور ہے کہ تم حصول دنیا کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6426]
حدیث حاشیہ:
بعد کے زمانوں میں مسلمانوں کی خانہ جنگی کی تاریخ پر گہری نظر ڈالنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا اور بیشتر اسلامی اکابر آپس میں رقابت سے تباہ ہو گئے حتیٰ کہ علماء کرام بھی اس بیماری سے نہ بچ سکے إلا من شاء اللہ۔
مزید اگر گوئم زباں سوزد۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6426
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4085
4085. حضرت عقبہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور اہل اُحد پر اس طرح نماز پڑھی جس طرح میت پر پڑھی جاتی ہے، پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ”میں تمہارے لیے میر کارواں ہوں اور تمہارے حق میں گواہی دوں گا۔ میں اب بھی اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اپنے بعد تمہارے متعلق شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتا بلکہ مجھے ڈر یہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرنے لگو گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4085]
حدیث حاشیہ:
روایات میں کسی نہ کسی طرح سے احد پہاڑ کا ذکر ہے۔
باب سے یہی وجہ مطابقت ہے۔
رسول کریم ﷺ نے مکہ سے آنے کے بعد مدینہ منورہ کو اپنا دائمی وطن قرار دے لیا تھا اور اس شہر سے آپ کو اس قدر محبت ہو گئی تھی کہ یہاں کا ذرہ ذرہ آپ کو محبوب تھا۔
اسی محبت سے احد پہاڑ سے بھی محبت ایک فطری چیز تھی۔
آج بھی یہ شہر ہر مسلمان کے لیے جتنا پیارا ہے وہ ہر مسلمان جانتا ہے۔
حدیث سے قبرستان میں جاکر دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا بھی ثابت ہوا۔
بعض لوگوں نے اسے آپ کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز سے یہاں دعائے مغفرت مراد ہے۔
مگر ظاہر حدیث کے الفاظ ان تاویلات کے خلاف ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4085
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1344
1344. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور شہدائے اُحد پر نماز پڑھی جس طرح اموات پر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، پھر منبر کی طرف لوٹے اورفرمایا:”میں تمھارا میرکاروں اور تم پر گواہ ہوں۔ اللہ کی قسم!میں اب اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین یا زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اپنے بعد تمھارے متعلق شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتا، لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1344]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے شہید کی نماز جنازہ کے متعلق کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں دیا۔
ایسے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طرح کی احادیث پیش کر کے انہوں نے یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔
حدیث جابر سے نفی اور حدیث عقبہ بن عامر سے اثبات معلوم ہوتا ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ زین بن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ غالبا امام بخاری ؒ شہید کے دفن ہونے کے بعد اس کی قبر پر نماز جنازہ کی مشروعیت ثابت کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ شہدائے اُحد کے دفن ہو جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی ہے، دفن ہونے سے قبل نہیں پڑھی۔
اس طرح دونوں احادیث کے ظاہر پر عمل ممکن ہے۔
(فتح الباري: 267/3)
ہمارے نزدیک معرکے میں شہید ہونے والے کی نماز جنازہ عام انسان کی طرح واجب نہیں بلکہ جائز ہے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔
ایک تو مذکورہ حدیث جسے امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ نے شہدائے اُحد پر اس طرح نماز پڑھی۔
جیسا کہ میت پر پڑھی جاتی ہے۔
٭ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت حمزہ کے پاس سے گزرے جن کا مثلہ کر دیا گیا تھا اور آپ نے شہدائے اُحد میں سے حضرت حمزہ ؓ کے علاوہ کسی کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3137)
حضرت شداد بن ہاد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شہید کو اپنے جبے میں کفن دیا، پھر اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
(سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1955)
ان احادیث کے مقابلے میں حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شہدائے اُحد کو ان کے خونوں سمیت دفن کرنے کا کم دیا اور ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
(4)
ان احادیث کے پیش نظر ہمارا موقف یہ ہے کہ شہید کی نماز جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے میں انسان کو اختیار ہے، لیکن زیادہ بہتر پڑھنا ہی ہے، کیونکہ دعا اور عبادت اجروثواب میں اضافے کا باعث ہے، البتہ شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا اس کے متعلق خیر القرون میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت زید بن حارثہ اور حضرت جعفر طیار ؓ مدینہ منورہ سے باہر جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔
رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی اطلاع دی گئی، لیکن آپ سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا ہو۔
ہمارے ہاں بڑی دھوم دھام سے شہید کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا رواج چل نکلا ہے اور اس کے لیے مندرجہ ذیل امور کی بجا آوری کو بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے:
٭ شہید کی غائبانہ نماز جنازہ کے لیے بڑے بڑے اشتہارات شائع کر کے درودیوار پر لگائے جاتے ہیں۔
٭ مساجد اور دینی مراکز میں اس کے متعلق اعلانات کیے جاتے ہیں۔
٭ کسی قد آور شخصیت کو غائبانہ نماز جنازہ کی امامت کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔
٭ علاقہ بھر سے لوگوں کو جمع کرنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔
٭ خواتین کو وہاں لے جانے کے لیے بسوں کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔
٭ اس تقریب میں تقاریر کے لیے مقررین کو دعوت دی جاتی ہے۔
٭ لوہا خوب گرم کرنے کے بعد خواتین و حضرات سے چندے کی بھرپور اپیل کی جاتی ہے۔
٭ آخر میں جلدی سے شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھ کر عوام کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔
اس انداز سے شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کے متعلق وہ حضرات خود بھی مطمئن نہیں ہیں اور انہیں اس کے متعلق شرح صدر نہیں۔
بہرحال ہمارے نزدیک مذکورہ بالا انداز سے شہید کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا محل نظر ہے۔
والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1344
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3596
3596. حضرت عقبہ بن عامر ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آپ باہر تشریف لائے اور شہدائے اُحد پرایسے نماز پڑھی جیسے فوت شدگان کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ منبر پر تشریف لاکر فرمانے لگے: ”میں تمہارا امیر کارواں اور منتظم بن کر جارہا ہوں اور میں تم پر گواہ بنوں گا۔ اللہ کی قسم!میں اپنے حوض کو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں، اللہ کی قسم! مجھے اپنے بعد تمہارے شرک کا ڈر نہیں لیکن یہ اندیشہ ضرور ہے کہ مبادا دنیا داری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3596]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں دو قسم کی پیش گوئیوں کا ذکر ہے ایک خزانوں اور دولت کی فراوانی واقعی مسلمانوں کو اس سلسلے میں بہت عروج ملا۔
دوسرے مسلمانوں کا باہمی حسد و رقابت۔
آپ کی یہ پیش گوئی بھی حرف پوری ہوئی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کو خود اپنوں ہی کے ہاتھوں جو تکلیفیں ہوئیں وہ غیروں کے ہاتھوں سے نہیں ہوئیں۔
مسلمانوں کے لیے غیروں کی شرارتوں ریشہ دوانیوں اور برے منصوبوں کے پیچھے بھی غدار مسلمانوں کا ہاتھ رہا ہے اس کی داستان بہت طویل ہے۔
اس سلسلے میں قارئین کو تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3596
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4085
4085. حضرت عقبہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور اہل اُحد پر اس طرح نماز پڑھی جس طرح میت پر پڑھی جاتی ہے، پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ”میں تمہارے لیے میر کارواں ہوں اور تمہارے حق میں گواہی دوں گا۔ میں اب بھی اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اپنے بعد تمہارے متعلق شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتا بلکہ مجھے ڈر یہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرنے لگو گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4085]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ سے حجرت کرنے کے بعد مدینہ طیبہ کو اپنا دائمی مسکن قراردے لیا تھا اور اس شہر سے آپ کو اس قدرمحبت ہوگئی تھی کہ یہاں کا ذرہ ذرہ آپ کو محبوب تھا۔
اس محبت کی بناپر اُحد پہاڑ سے محبت ایک فطری چیز تھی۔
آج بھی مدینہ طیبہ کی محبت ہرمسلمان کے رگ وریشے میں رچی بسی ہے۔
اہل اُحد پر نماز جنازہ پڑھنا بھی اس محبت کا حصہ ہے۔
بعض لوگ اس نماز جنازہ کی تاویلات کرتے ہیں مگر حدیث کے الفاظ ان تاویلات کے خلاف ہیں۔
2۔
اس حدیث میں حوض کوثر پر شرف دیدار نبوی کا ذکر ہے۔
وہاں ہم سب مسلمان رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کا اعزاز حاصل کریں گے۔
یہ اعزاز صرف اور صرف قرآن وحدیث کی نشرواشاعت کرنے والوں اور ان پر عمل پیرا رہنے والوں کو ملے گا۔
دعا ہے کہ اللہ کریم ہم سب کو عمل کی توفیق دے اور حوض کوثر پررسول اللہ ﷺ کی ملاقات نصیب فرمائے۔
آمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4085
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6426
6426. حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ باہرتشریف لے گئے اور احد کے شہداء پر اس طرح نماز جنازہ پڑھی جس طرح میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ”میں تمھہارا ”میر سفر“ ہوں گا اور تم پر گواہی دوں گا۔ اللہ کی قسم! میں اب اپنا حوض دیکھ رہا ہوں۔ مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے تمہارے متعلق یہ اندیشہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے لیکن مجھے یہ خطرہ ضرور ہے کہ تم حصول دنیا کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6426]
حدیث حاشیہ:
(1)
دنیا کی بہاریں اور اس کی رنگینی جس پر کھول دی جائے اسے چاہیے کہ اس کے برے انجام اور سنگین نتائج سے بچنے کی کوشش کرے۔
اسے دیکھ کر خود کو مطمئن نہ کرے اور نہ اس کے متعلق کسی دوسرے سے آگے بڑھنے کی تگ و دو ہی کرے۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فقر و تنگدستی کا درجہ مال داری اور تونگری سے زیادہ ہے کیونکہ دنیا کا فتنہ مال و دولت سے وابستہ ہے، بعض اوقات یہ فتنہ انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے جبکہ فقیر و تنگدست انسان ان تمام قسم کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔
(فتح الباري: 295/11) (3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ چٹائی پر سوئے ہوئے تھے۔
جب بیدار ہوئے تو نرم و نازک جسم پر چٹائی کے نشان پڑ چکے تھے۔
یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
اللہ کے رسول! اگر آپ حکم دیں تو ہم کسی بستر کا انتظام کر دیں۔
آپ نے ارشاد فرمایا:
”مجھے دنیا اور اس کے سازوسامان سے کیا غرض ہے؟ میرا تعلق تو دنیا کے ساتھ اس مسافر جیسا ہے جو کچھ دیر سایہ لینے کے لیے درخت کے نیچے ٹھہرا پھر اسے چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف چل دیا۔
“ (مسند أحمد: 441/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6426