9. باب: غرور سے (ٹخنوں سے نیچے) کپڑا لٹکانے کی حرمت کے بیان میں اور اس کا بیان کہ کہاں تک کپڑا لٹکانا مستحب ہے۔
Chapter: The Prohibition Of Letting One's Garment Drag Out Of Pride, And The Extent To Which It Is Permissible To Let It Hang Down And The Extent To Which It Is Recommended
حدثنا عبيد الله بن معاذ ، حدثنا ابى حدثنا شعبة ، عن محمد وهو ابن زياد ، قال: سمعت ابا هريرة وراى رجلا يجر إزاره، فجعل يضرب الارض برجله وهو امير على البحرين، وهو يقول: جاء الامير جاء الامير، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله لا ينظر إلى من يجر إزاره بطرا ".حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِى حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَهُوَ ابْنُ زِيَادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ وَرَأَى رَجُلًا يَجُرُّ إِزَارَهُ، فَجَعَلَ يَضْرِبُ الْأَرْضَ بِرِجْلِهِ وَهُوَ أَمِيرٌ عَلَى الْبَحْرَيْنِ، وَهُوَ يَقُولُ: جَاءَ الْأَمِيرُ جَاءَ الْأَمِيرُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى مَنْ يَجُرُّ إِزَارَهُ بَطَرًا ".
عبید اللہ کے والد معاذ نے کہا: ہمیں شعبہ نے محمد بن زیاد سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، اور انھوں نے ایک شخص کو چادر گھسیٹ کر چلتے ہو ئے دیکھا اس شخص نے زمین پر پاؤں مار مار کہنا شروع کر دیا: امیر آگئے امیرآگئے۔وہ (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ) بحرین کے امیر تھے۔ (یہ دیکھ کر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا "جو شخص اتراتے ہو ئے زمین پر اپنی ازار گھسیٹتا ہے اللہ تعا لیٰ اس کی طرف نظر تک نہ فرمائے گا۔
محمد جو زیاد کا بیٹا ہے، بیان کرتا ہے، میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، جبکہ انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا، وہ اپنی تہبند گھسیٹ رہا ہے تو وہ زمین پر اپنا قدم مارنے لگے اور وہ بحرین کے امیر تھے اور وہ کہہ رہے تھے، امیر آ گیا، امیر (حاکم) آ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس انسان پر نظر نہیں ڈالتا جو اترانے کی خاطر اپنی تہبند گھسیٹتا ہے۔“
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 419
´ازار لٹکانے والوں کے لئے وعید` «. . . 358- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا ينظر الله يوم القيامة إلى من جر إزاره بطرا.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص تکبر سے اپنا ازار گھسیٹ کر چلے گا تو اللہ اسے قیامت کے دن (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 419]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5788، من حديث مالك به] تفقه: ➊ تکبر سے ازار یا چادر وغیرہ گھسیٹ کر چلنا حرام ہے لیکن اگر کسی شدید مصروفیت یا بے خیالی میں کپڑا گھسٹ جائے تو حرام نہیں ہے۔ ➋ اس حدیث کے عموم سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ عام لوگوں سے الگ خاص قسم کا قیمتی کپڑا پہن کر تکبر سے چلنا ممنوع ہے اور اس کی نمائش کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 358
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3571
´فخر و غرور سے ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے والے پر وارد وعید کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس سے قریش کا ایک جوان اپنی چادر لٹکائے ہوئے گزرا، آپ نے اس سے کہا: میرے بھتیجے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جس نے غرور و تکبر سے اپنے کپڑے گھسیٹے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3571]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کسی کو غلط کام کرتے دیکھ کر فوراً ٹوک دینا درست ہے۔ یہ نہ سوچا جائےکہ اس نے مسئلہ پہلے بھی تو سنا ہوگا۔
(2) غلطی پر متنبہ کرتے وقت غصے کے بجائے پیار سے بات کی جائے خاص طور پر اپنے سے چھوٹی عمر کے فرد کو بیٹا یا ایسا مناسب لفظ بول کر مخاطب کیا جا سکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3571
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5788
5788. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی قیامت کے دن اس شخص کو نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا جس نے تکبر کی وجہ سے اپنا کپڑا زمین پر گھسیٹا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5788]
حدیث حاشیہ: اصل برائی غرور، تکبر، گھمنڈ ہے جو اللہ کو سخت نا پسند ہے یہ غرور تکبر گھمنڈ جس طور پر بھی ہو مذموم ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5788
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5788
5788. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی قیامت کے دن اس شخص کو نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا جس نے تکبر کی وجہ سے اپنا کپڑا زمین پر گھسیٹا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5788]
حدیث حاشیہ: (1) کسی کو دیکھنے سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اسے نظر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اگر کسی عاجزی کرنے والے انسان کو دیکھا جائے تو اس پر رحم کرنے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور اگر کسی متکبر کو دیکھا جائے تو غصہ بھڑک اٹھتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ جب کسی کو تکبر کی وجہ سے چادر ٹخنوں سے نیچے لٹکائے دیکھے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہو گا جیسا کہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے ایک آدمی نے لباس پہن کر تکبر کیا تو اللہ تعالیٰ اس پر اس قدر ناراض ہوا کہ زمین کو حکم دیا تو اس نے اس شخص کو پکڑ لیا۔ “(جامع الترمذي، صفة القیامة، حدیث: 2491)(2) بہرحال اصل برائی انسان کا تکبر کرنا اور فخر و غرور میں مبتلا ہونا ہے جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے، یہ غرور جس طرح بھی ہو مذموم ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5788