حدثنا سعيد بن منصور ، حدثنا عبد الله بن وهب ، حدثني ابو هانئ الخولاني ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن ابي سعيد الخدري ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال يا ابا سعيد: " من رضي بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا، وجبت له الجنة "، فعجب لها ابو سعيد، فقال: اعدها علي يا رسول الله، ففعل، ثم قال: " واخرى يرفع بها العبد مائة درجة في الجنة ما بين كل درجتين كما بين السماء والارض "، قال: وما هي يا رسول الله؟، قال: " الجهاد في سبيل الله الجهاد في سبيل الله ".حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَا أَبَا سَعِيدٍ: " مَنْ رَضِيَ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّد ٍ نَبِيًّا، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ "، فَعَجِبَ لَهَا أَبُو سَعِيدٍ، فَقَالَ: أَعِدْهَا عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَفَعَلَ، ثُمَّ قَالَ: " وَأُخْرَى يُرْفَعُ بِهَا الْعَبْدُ مِائَةَ دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ "، قَالَ: وَمَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ".
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابوسعید! جو شخص اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر (دل کی گہرائیوں) سے راضی ہو گیا، اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔" حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کو یہ بات اچھی لگی تو کہنے لگے: اللہ کے رسول! یہی بات میرے سامنے دوبارہ ارشاد فرمائیں، آپ نے ایسا ہی کیا، اس کے بعد فرمایا: "ایک بات اور بھی ہے جس کی وجہ سے بندے کو سو درجے رفعت بخشی جاتی ہے اور ہر دو درجوں میں زمین اور آسمان جتنا فاصلہ ہے۔" کہا: (میں نے عرض کی) اللہ کے رسول! وہ (بات) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "اللہ کے راستے میں جہاد کرنا، اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابو سعید، جو شخص اللہ کے رب ہونے، اسلام کے ضابطہ حیات ہونے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نبی ہونے پر راضی ہو گیا، اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔“ ابو سعید کو یہ بات بہت اچھی لگی، تو اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے دوبارہ سنائیے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا، پھر فرمایا: ”ایک اور خصلت ہے، اس سے بندے کے جنت میں سو درجے بلند کیے جاتے ہیں، دو درجوں کے درمیان آسمان و زمین کے درمیانی فاصلہ کے برابر فاصلہ ہے۔“ ابو سعید نے پوچھا، وہ کون سی خصلت ہے؟ اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد، اللہ کی راہ میں جہاد“
من رضي بالله ربا وبالإسلام دينا و بمحمد نبيا وجبت له الجنة أخرى يرفع بها العبد مائة درجة في الجنة ما بين كل درجتين كما بين السماء والأرض قال وما هي يا رسول الله قال الجهاد في سبيل الله
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4879
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، جنت میں تو انسان جہاد کے بغیر بھی چلا جائے گا، لیکن وہ مراتب و درجات جو انتہائی بلند و بالا اور اشرف ہیں، ان سے محروم ہو جائے گا اور ان نعمتوں سے محروم رہے گا، جن کا تصور بھی انسان اس دنیا میں نہیں کر سکتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4879
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1529
´توبہ و استغفار کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کہے: «رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا»”میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہوا“ تو جنت اس کے لیے واجب گئی۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1529]
1529. اردو حاشیہ: شرط یہ ہے کہ قول کے ساتھ ساتھ عمل اور کردار کی تایئد بھی ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1529
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3133
´اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کے درجات و مراتب۔` ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوسعید! جو شخص راضی ہو گیا اللہ کے رب ۱؎ ہونے پر اور اسلام کو بطور دین قبول کر لیا ۲؎ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ۳؎ کا اقرار کر لیا، تو جنت اس کے لیے واجب ہو گئی ۴؎، (راوی کہتے ہیں) یہ کلمات ابوسعید کو بہت بھلے لگے۔ (چنانچہ) عرض کیا: اللہ کے رسول! ان کلمات کو آپ مجھے ذرا دوبارہ سنا دیجئیے، تو آپ نے دہرا دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3133]
اردو حاشہ: ”بڑے عجیب لگے“ کیونکہ ظاہر ایک آسان چیز پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، اگرچہ حقیقتاً یہ بہت مشکل کام ہے کیونکہ رضا کا علم اعمال سے ہوگا۔ اور عمل سے ایمان کا ثبوت مہیا کرنا ہی مشکل کا م ہے۔ دوسرے معنیٰ یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ”بڑے عمدہ لگے“ کیونکہ مومن کے لیے یہ عظیم خوشخبری ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3133