4580. عقیل نے ابن شہاب سے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی، انہوں نے اِن (عروہ) کو خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف پیغام بھیجا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ورثے میں سے اپنی وراثت کا مطالبہ کر رہی تھیں جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ اور فدک میں بطور فے دیا تھا اور جو خیبر کے خمس سے باقی بچتا تھا، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا، ہم جو چھوڑیں گے وہ صدقہ ہو گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان اس مال میں سے کھاتا رہے گا۔“ اور اللہ کی قسم! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے کی اس کیفیت میں بھی تبدیلی نہیں کروں گا جس پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھا، اور میں اس میں اسی طریقے پر عمل کروں گا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو کچھ دینے سے انکار کر دیا تو اس معاملے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پر ناراض ہو گئیں، انہوں نے ان سے قطع تعلق کر لیا اور ان سے بات چیت نہ کی حتی کہ وفات پا گئیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں، جب فوت ہوئیں تو ان کے خاوند حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں رات کے وقت دفن کر دیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس بات کی اطلاع نہ دی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی زندگی میں حضرت علی ؓ کی طرف لوگوں کی توجہ تھی، جب وہ وفات پا گئیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کے چہرے بدلے ہوئے پائے، اس پر انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے صلح اور بیعت کرنی چاہی۔ انہوں نے ان (چھ) مہینوں کے دوران میں بیعت نہیں کی تھی۔ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ ہمارے ہاں تشریف لائیں اور آپ کے ساتھ کوئی اور نہ آئے۔۔ (ایسا) عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی آمد کو ناپسند کرتے ہوئے (کہا)۔۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: اللہ کی قسم! آپ ان کے ہاں اکیلے نہیں جائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ان سے کیا توقع ہے کہ وہ میرے ساتھ (کیا) کریں گے؟ اللہ کی قسم! میں ان کے پاس جاؤں گا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ان کے ہاں آئے تو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے (خطبے اور) تشہد کے کلمات کہے، پھر کہا: ابوبکر! ہم آپ کی فضیلت اور اللہ نے جو آپ کو عطا کیا ہے، اس کے معترف ہیں، ہم آپ سے اس خوبی اور بھلائی پر حسد نہیں کرتے جو اللہ نے آپ کو عطا کی ہے، لیکن آپ نے امارت (قبول کر کے) ہم پر من مانی کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ داری کی بنا پر ہم سمجھتے تھے کہ ہمارا بھی کوئی حق ہے (ہم سے بھی مشورہ کیا جاتا)، وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے گفتگو کرتے رہے حتی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی دونوں آنکھیں بہہ پڑیں۔ پھر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے گفتگو کی تو کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے اپنی قرابت کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت نبھانا کہیں زیادہ محبوب ہے اور اس مال کی بنا پر میرے اور آپ لوگوں کے درمیان جو اختلاف ہوا ہے تو میں اس میں حق سے نہیں ہٹا، اور میں نے کوئی ایسا کام نہیں چھوڑا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں کرتے ہوئے دیکھا تھا مگر میں نے بالکل وہی کیا ہے۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: بیعت کے لیے آپ کے ساتھ (آج) پچھلے وقت کا وعدہ ہے۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ظہر کی نماز پڑھائی تو منبر پر چڑھے، کلماتِ تشہد ادا کیے اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا حال، بیعت سے ان کے پیچھے رہ جانے کا سبب اور ان کا وہ عذر بیان کیا جو انہوں نے ان کے سامنے پیش کیا تھا، پھر استغفار کیا۔ (اس کے بعد) علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے کلماتِ تشہد ادا کیے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے حق کی عظمت بیان کی اور یہ (کہا:) کہ انہوں نے جو کیا اس کا سبب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مقابلہ بازی اور اللہ نے انہیں جو فضیلت دی ہے اس کا انکار نہ تھا، لیکن ہم سمجھتے تھے کہ اس معاملے میں ہمارا بھی ایک حصہ تھا جس میں ہم پر من مانی کی گئی ہے، ہمیں اپنے دلوں میں اس پر دکھ محسوس ہوا۔ اس (گفتگو) پر مسلمانوں نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا، انہوں نے کہا: آپ نے درست کہا ہے اور جب وہ پسندیدہ بات کی طرف لوٹ آئے تو مسلمان حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے قریب ہو گئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف پیغام بھیجا، ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے اپنا حصہ مانگا، جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مدینہ اور فدک میں لوٹایا تھا اور خیبر کے خمس سے جو بچا تھا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا، ہم نے جو کچھ چھوڑا صدقہ ہو گا“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل (خاندان) اس مال سے کھاتا رہے گا اور میں اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کروں گا، جس پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھا، میں اس میں وہی لائحہ عمل اختیار کروں گا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمل پیرا تھے تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بطور وراثت کچھ دینے سے انکار کر دیا، اس معاملہ پر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پر ناراض ہو گئیں اور ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور ان سے اپنی وفات تک گفتگو نہیں کی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں، انہیں ان کے خاوند حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو آگاہ کیے بغیر رات کو دفن کر دیا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ہی ان کی نماز جنازہ پڑھائی، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی میں لوگوں کی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف کچھ توجہ تھی، (وہ انہیں کچھ اہمیت دیتے تھے) تو جب وہ وفات پا گئیں، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کے چہروں میں تبدیلی محسوس کی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے صلح اور بیعت کی خواہش کی اور انہوں نے ان مہینوں میں بیعت نہیں کی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں اور ہمارے پاس آپ کے ساتھ کوئی اور نہ آئے، وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی آمد کو پسند نہیں کرتے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا، اللہ کی قسم! آپ ان کے پاس اکیلے نہ جائیں، اس پر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا وہ میرے ساتھ کیا سلوک کر سکتے ہیں، یعنی کسی ناگوار سلوک کا خطرہ نہیں ہے، میں اللہ کی قسم! ان کے پاس ضرور جاؤں گا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ان کے ہاں پہنچے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کلمہ شہادت (خطبہ) پڑھا اور پھر کہا کہ ہم اے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ آپ کی فضیلت کے معترف ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو (خلافت) دی ہے، ہم اس کو بھی پہچانتے ہیں اور جو اچھائی اور خیر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عنایت کی ہے، ہم اس پر آپ سے حسد نہیں کرتے، لیکن بات یہ ہے کہ آپ نے ہمارے مشورہ کے بغیر خود ہی اس خلافت کا فیصلہ کر لیا اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ داری کی بنا پر (مشورہ میں) اپنا حق سمجھتے تھے، اس طرح وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے گفتگو کرتے رہے حتی کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگے تو جب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے گفتگو شروع کی کہا، اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ داری کا پاس، لحاظ، مجھے اپنی رشتہ داری سے، صلہ رحمی کرنے سے زیادہ عزیز ہے، رہا وہ اختلاف جو میرے اور آپ کے درمیان ان اموال کی بنا پر پیدا ہو گیا ہے تو میں نے حق کو ملحوظ رکھنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور میں نے کوئی ایسا کام نہیں چھوڑا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے کرتے دیکھا ہے، میں نے ایسے ہی کیا ہے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوبکر سے کہا، آج سہ پہر ہم آپ سے بیعت کریں گے، تو جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ظہر کی نماز پڑھا دی، وہ منبر پر چڑھ گئے، تشہد یعنی کلمہ شہادت پڑھا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا مقام و مرتبہ بیان کیا اور بیعت سے پیچھے رہنے کی بات کی اور ان کا وہ عذر بیان کیا جو انہوں نے پیش کیا تھا، پھر استغفار کیا، (اور منبر سے اتر آئے۔) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا اور ابوبکر سے حق کی عظمت کو بیان کیا اور بتایا کہ میں نے جو کچھ کیا ہے، اس پر مجھے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے حسد نے آمادہ نہیں کیا اور نہ اس فضیلت سے انکار نے جو اللہ نے اسے بخشی ہے، لیکن بات یہ ہے کہ ہم اس معاملہ (خلافت) میں اپنا حصہ سمجھتے تھے اور ہمیں اس میں مشورہ دینے سے محروم رکھا گیا، اس وجہ سے ہم نے ناراضی محسوس کی، اس سے مسلمان خوش ہو گئے اور کہنے لگے، آپ نے درست کہا اور جب وہ معروف بات کی طرف لوٹ آئے تو مسلمان حضرت علی کے زیادہ قریب ہو گئے۔